انصار عباسی
اسلام آباد :…وزیر داخلہ محسن نقوی پی ٹی آئی کے مختلف رہنماؤں سے بات کرتے رہے اور ان میں سے دو کو اسلام آباد سے 45؍ کلومیٹر دور حسن ابدال جانے کیلئے ہیلی کاپٹر تک فراہم کیا تاکہ وہ بشریٰ بی بی کو ڈی چوک کی طرف مارچ نہ کرنے کیلئے آمادہ کریں، لیکن خاتون نے کسی کی ایک نہ سنی۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ بشریٰ بی بی پشاور سے مارچ میں شریک ہوں۔
انہوں نے بشریٰ بی بی کو وہیں رہنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن بشریٰ بی بی نے مارچ میں شامل ہونے پر اصرار کیا اور کنٹینر پر سوار ہو کر قیادت کی۔
ایک باخبر ذریعے کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر دونوں میں بحث بھی ہوئی تھی۔ حالیہ دنوں میں چند مواقع ایسے آئے جب حکومت اور پی ٹی آئی قیادت کے درمیان پس پردہ بات چیت میں بریک تھرو کا امکان تھا۔
پہلا موقع 24؍ نومبر کے احتجاجی مارچ کی تاریخ سے تین دن پہلے کا تھا جب دونوں فریقین کو باضابطہ بات چیت کا موقع ملا لیکن عمران خان نے گزشتہ جمعہ تک اپنی رہائی کی شرط رکھ دی جس پر حکومت نے اتفاق نہ کیا۔
اس کے بعد، پی ٹی آئی کے رہنما دو روز تک حکومت بالخصوص وزیر داخلہ سے رابطہ کرتے رہے تاکہ انہیں عمران خان سے ملنے دیا جائے تاکہ ان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر احتجاجی مارچ کا مقام ڈی چوک سے تبدیل کرنے پر راضی کیا جا سکے۔ تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں کو ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔
ابتدائی دو روز کے دوران پس پردہ بات چیت کے بعد علی امین گنڈا پور اور بیریسٹر گوہر کو عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملنے کی اجازت دی گئی۔ محسن نقوی مسئلے کے مناسب حل تک پہنچنے کیلئے ان کی مدد کر رہے ہیں۔
پیر کو، احتجاجی مارچ کے دوسرے روز، پی ٹی آئی کے دو رہنماؤں (بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف) کو عمران خان سے ملاقات کی سہولت دی گئی۔
عمران خان نے ان رہنماؤں سے ملاقات کے بعد ڈی چوک تک مارچ نہ کرنے اور اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سنگجیانی پر دھرنا دینے کی رضامندی دی۔ پارٹی قیادت کو حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان پس منظر میں ہونے والی بات چیت کے نتیجے تک سنگجیانی پر دھرنے کی ہدایت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق، عمران خان نے گنڈا پور سے فون پر بات بھی کی۔
ایک تجویز یہ تھی کہ عمران خان سنگجیانی سے متعلق ایک ویڈیو پیغام میں اپنی ہدایات دیں تاہم ایسا نہ ہو سکا کیونکہ عمران خان کو شک تھا کہ ان کی ویڈیو میں تبدیلی (ایڈیٹنگ) کی جا سکتی ہے۔ عمران خان کا پیغام بشریٰ بی بی کو علی امین گنڈا پور، عمر ایوب اور دیگر رہنماؤں نے پہنچایا لیکن اس کے باوجود بشریٰ بی بی نے مارچ ڈی چوک تک جاری رکھنے پر اصرار کیا۔
بعد ازاں بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف (جنہوں نے پیر کو عمران خان سے ملاقات کی تھی) کو وزیر داخلہ محسن نقوی نے حسن ابدال جانے اور بشریٰ بی بی کو رکنے پر قائل کرنے کیلئے ہیلی کاپٹر فراہم کیا۔ لیکن جب دونوں رہنما حسن ابدال پہنچے تو مارچ اسلام آباد کی طرف بڑھ چکا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ محسن نقوی نے علی امین گنڈا پور اور عمر ایوب سے بھی بات کی لیکن یہ رہنما بھی بے بس نظر آئے کیونکہ احتجاجی مارچ بشریٰ بی بی کے مکمل کنٹرول میں تھا۔
پی ٹی آئی کے کچھ رہنما، جو گزشتہ چند روز کے دوران وزیر داخلہ کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے، محسن نقوی کے کردار کو سراہ رہے ہیں کہ وہ مسئلے کے حل کی خاطر باضابطہ مذاکرات کی جانب بڑھنے میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔