• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
آج کل کی پاکستان کی سیاست دیکھ کر مجھے مغلیہ سلطنت کے بانی تیمور لنگ کی تاریخ یاد آگئی جو ایک پاؤں سے لنگڑا تھا، اس لیے اسے تیمور لنگ کہتے تھے، وہ بچپن سے لڑکوں کے ساتھ کھیل میں ہی اپنے آپ کو بادشاہ بناتا اور لڑکوں کو مختلف عہدے تقسیم کرتا تھا، جب وہ ذرا بڑا ہوا تو اپنے ساتھی لڑکوں سے کہا کہ وہ اب نئی قسم کا کھیل کھیلنا چاہتا ہے، چنانچہ اس نے کھیل، کھیل میں آس پاس کے دیہاتوں میں حلقے بناکر ایک ایک لڑکے کو عہدے دار مقرر کردیا اور خود بادشاہ بن گیا اور ان دیہاتوں کے اہم مسائل پر یہ لڑکے فیصلے دینے لگ گئے، یہاں تک کہ ایک دیہات کے ایک چور کو پھانسی کا حکم دیا اور پھانسی دے دی جس پر اس کے کچھ ساتھی تو ڈر کے مارے بھاگ گئے لیکن تیمور کی دھاک بیٹھ گئی ور اس نے لڑنے مرنے والوں کا ایک جتھہ تیار کیا اور اردگرد کے دیہاتوں پر باقاعدہ قبضہ کرکے اپنا حکم لاگو کرنا شروع کردیا اور بڑھتے بڑھتے اردگرد کے سرداروں اور پھر راجپوتوں کے ساتھ مقابلے شروع کردیئے اور کامیاب ہوتے ہوئے کابل پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا اور پھر ہندوستان پر حملہ کرنے کی تیاری کرنے لگا اور ہندوستان کی طرف چل پڑا تو راستے میں اسے موت نے آن گھیرا اور وہ چل بسا، پھر اس کا فرزند بات آگے لے کر چل پڑا۔ خیر یہ قصہ بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم آج ایک ہزار سال بعد بھی اسی طرح کی جتھہ سیاست میں پھنسے ہوئے ہیں، اسی طرح سے قافلے بناکر انہیں فتوحات اور جہاد کے نشے کے ٹیکے لگاکر ملک کا اقتدار فتح کرنے چل نکلتے ہیں، آج فرق یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے زمانہ بدل دیا ہے، سوشل میڈیا دنیا پر گہرے انداز میں اثر انداز ہورہا ہے جس میں فیک نیوز نے ایک پراثر مقام حاصل کرلیا ہے، اب جتھے اور قبضے کی خبریں یوں دی جاتی ہیں گویا سادہ لوح دماغ متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ سوشل میڈیا پر خبروں کی یلغار اور فیک نیوز کی بھرمار سے عام آدمی کا ذہن یقین کئے بغیر رہ نہیں سکتا، پی ٹی آئی اس معاملے میں بہت آگے ہے بلکہ انہوں نے اپنی فیک نیوز اور فیک تجزیوں کا ایک تانا بانا بن رکھا ہے کہ جو کوئی اس فیک نیوز پر یقین نہیں کرتا، اس کی عافیت خراب کرکے رکھ دی جاتی ہے۔ اب موجودہ حکومت بھی اسی طرح کی ڈگر پر چل نکلی ہے اس تمام تر صورت حال میں حقیقتاً جو بہت بری طرح متاثر ہے، وہ پاکستان کے عوام ہیں جن کے اذہان ان خبروں کی یلغار میں مفلوج ہوچکے ہیں، اس کنفیوژن میں لوگوں کو وہی فلم نظر آتی ہے جو ان کا پسندیدہ نیٹ ورک انہیں بتاتا ہے، وہ دیکھنا بھی وہی چاہتے ہیں، جو ان کا دماغ دیکھنا اور سننا چاہتا ہے، اس سب کچھ کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ پاکستان میں جمہوری اداروں کا تو خاتمہ ہوچکا ہے اور ایک طرف جہاں لوگ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ بے نقاب ہوچکی ہے تو دوسری طرف یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سب کچھ کھلم کھلا کرنے بھی لگ گئی ہے۔ مجھے ڈاکٹر بی آر ایمبڈکر Dr.B.R Ambaedkar کی کتاب پاکستان اور دی پارٹیشن آف انڈیا یاد آرہی ہے جس میں1942ء میں ڈاکٹر ایمبڈکر نے واضح انداز میں لکھا تھا کہ انڈیا میں انگریزوں نے جو اتنی بڑی فوج بنادی ہے، اب اگر وہ اسے یوں ہی چھوڑ کر چلے گئے کہ پورے ہندوستان میں ایکMess برپا رہے گا۔ اس انگریزی انڈین فوج میں بڑی تعداد تو پنجاب، بنگال، یوپی اور پشتون بیلٹ سے ہے۔ اس لیے اس فوج کو ایک ملک دے دینا چاہئے تاکہ وہ وہاں اپنی طاقت کے تجربے کرتے رہیں اور اس نے پاکستان بنانے کی تجویز دی، اسی نقطہ نظر سے خوب سپورٹ کی کہ پاکستان اس نقطہ نظر کو بھی سامنے رکھتے ہوئے بنا۔ ڈاکٹر ایمبڈکر انڈیا کی پہلی آئین ساز کمیٹی کے چیئرپرسن تھے اور ان کے نقطہ نظر کیAuthenticity کی دھاک نہ صرف نہرو اور گاندھی پر تھی بلکہ جناح بھی ڈاکٹر بی آر ایمبڈکر کو بہت زیرک اور مستند صاحب الرائے مانتے تھے۔ آج ہم پاکستان کو دیکھیں کہ اس نقطہ نظر کو درست ماننے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں لیکن ڈاکٹر ایمبڈکر کے نقطہ نظر کو زیادہ پھیلنے نہیں دیا جاتا بلکہ بہت سے بڑے بڑے مورخ اس نقطہ نظر کے بیان کو اپنی تحریروں میں لائے اور اس پر بحث کرنے سے کتراتے ہیں۔ خیر اب پاکستان میں تو سیاست، معیشت اور نظریاتی میدان میں ہم باآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ کون کنٹرول کررہا ہے، سیاستدان پیدا کیے جاتے ہیں، پالے جاتے ہیں، انہیں عوام پر مسلط کرکے ان کا ہیرو بناتا جاتا ہے، پھر ان کے خلاف ہوجاتے ہیں، پھر انہیں منظر سے ہٹایا جاتا ہے، پہلے عوام سے سجدے کرائے جاتے ہیں، پھر ان ہی سے جوتیاں لگوائی جاتی ہیں، یہ ہے اصل میں عوام کے مائنڈ سیٹ پر کنٹرول اور اپنے لیڈروں کے ساتھ عوام بھی پتلیوں کی طرح ناچتے رہتے ہیں، لگتا ہے یہ ڈھانچہ اسی طرح چلتا رہے گا اور عوام کبھی بھی ذہنی پسماندگی سے باہر نہیں آسکیں گے۔ پاکستان میں سائنسی سوچ کا پنپنا کچھ ناممکن سا لگتا ہے، کم از کم ہماری زندگی میں تو کچھ بدلتا نظر نہیں آتا، اللہ کرے ایسا نہ ہو۔ 
یورپ سے سے مزید