کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق شیخ کےسوال یہ سیاسی جماعت نہیں، فتنہ ہے، وزیراعظم کی پی ٹی آئی پر کڑی تنقید۔سخت ایکشن یا افہام و تفہیم؟
حکومت کو اس وقت کون سا راستہ اپنانا چاہئے؟ کا جواب دیتے ہوئےتجزیہ کاراعزاز سید نےکہا کہ پاکستان عملی طو رپر بند گلی میں چلا گیا ہے۔ ہم آمرانہ ریاست ہیں۔
وزیراعظم نے جو پابندی عائد کرنے کی بات کی پیچھے ایک پوری سوچ ہے، تجزیہ کاربینظیر شاہ نے کہا کہ جو ملک دنیا کوسرمایہ کاری کی دعوت دے رہا ہے۔ وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے خلاف سخت ایکشن لینے جارہا ہے۔
ایک غیر مستحکم ملک میں کون سرمایہ کاری کرنا چاہے گا، وزیراعظم فیصلہ کریں گے کون سیاسی جماعت ہے یا ملک کے عوام فیصلہ کریں گے،تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگی اور کے پی میں گورنر راج لگایا تو اس سے بڑا پاگل پن کوئی نہیں ہوگا۔
تجزیہ کارمظہر عباس نےکہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ طاقتور مسئلہ حل کریں تو پھر جمہوریت کی بات نہ کریں۔سیاسی جماعتیں اپنے مسائل خود حل کریں ہم کب تک تیسری قوت کی طرف دیکھتے رہیں گے۔
پی ٹی آئی سبق سیکھے۔تجزیہ کاربینظیر شاہ نے کہا کہ سیاسی مسئلہ ہے اس کو سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہئے۔
پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے19 ملین ووٹ حاصل کئے ہیں۔آج بھی آزاد اور شفاف انتخابات ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی جیت جائے گی۔پی ٹی آئی کو کہا جارہا ہے کہ ہم آپ کو احتجاج اجازت نہیں دیں گے۔ احتجاج ان کا بنیادی حق ہے۔
پیغام یہ جاتا ہے کہ ان ووٹرز کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اگر آپ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرتے ہیں یا گورنر راج لگاتے ہیں۔جو ملک دنیا کوسرمایہ کاری کی دعوت دے رہا ہے۔ وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے خلاف سخت ایکشن لینے جارہا ہے۔ایک غیر مستحکم ملک میں کون سرمایہ کاری کرنا چاہے گا۔
حکومت اپنی غیر مقبولیت کو لے کر اتنی خوفزدہ ہے ہر چیز کا جواب ہوتا ہے پابندی لگادو۔حکومت اور ریاستیں معاملات کو ڈائیلاگ سے حل کرتی ہیں۔لگتا ہے ن لیگ نے اگلا الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اگر لڑنا چاہتے ہیں تو کسی اور کے سہارے جیتنا چاہتے ہیں۔وزیراعظم فیصلہ کریں گے کون سیاسی جماعت ہے یا ملک کی عوام فیصلہ کریں گے۔ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے آپ صبر دکھائیں معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
تجزیہ کاراعزاز سید نےکہا کہ یہ بحران2014 ء میں شروع ہوا اور2018ء میں اس نے ایک نئی جہت پکڑی۔ پاکستان کی پارلیمنٹ عوامی مرضی پیش نہیں کررہی ۔عمران خان ٹکراؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تعمیری اور بامقصد سیاست کرتے۔
انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی۔اس کا جواب بھی اسی طریقے سے ملاجس طرح نام لے کر ٹکراؤ کرتے رہے۔