نائلہ رضوان
مصروف ترین اور شور وغل سے بھر پور شہر ِ کراچی کے ایک پرانے علاقے میں ایک سفید اور معصوم کبوتر اپنے والدین اور دوسرے پرندوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کا نام چاند تھا۔
اس علاقے کے ایک قدیم پیپل کے درخت میں اس کے والدین نے گھونسلہ بنایا ہوا تھا، جہاں وہ پیدا ہوا، یہیں سے اس نے اڑنا سیکھا۔ وہ روزانہ اپنے دوست پرندوں کے ساتھر خوراک کی تلاش میں مختلف علاقوں میں اڑتا پھرتا۔
کراچی کی فضا پہلے صاف تھی ، جہاں چاند اور اس کے دوست آزادی سے اڑا کرتے تھے ، لیکن جیسے جیسے وقت گزرا ، کراچی میں گاڑیوں ، فیکٹریوں اور بے تحاشہ تعمیرات کی وجہ سے آلودگی بڑھنے لگی اور ہوا میں دھویں کے بادل چھانے لگے۔ گرد و غبار کی وجہ سے اسے پوری قوت لگا کر اُڑنا پڑتا تھا، اس کی آنکھوں میں بھی جلن سی رہنے لگی تھی۔
ایک دن وہ اڑتے اڑتے سمندر کے کنارے جاپہنچا تو اس نے دیکھا کہ سمندر کا پانی بھی گندہ اور سیاہ ہو چکا ہے۔ وہاں رہنے والےپرندے بھی بیمار نظر آرہے تھے، مچھلیاں جو کبھی سمندر میں چھلانگیں لگاتی تھیں اور لمبی ٹانگوں والے بگلے اچھلتے کودتے نظر آتے تھے اب بہت کم دکھائی دے رہے تھے۔
یہ منظر دیکھ چاند اداس ہوگیا۔ وہ واپس اپنے گھونسلے میں آیا اور اپنی امی سے شہر کی آلودگی کے بارے میں بتایا ، اسکی امی نے کہا،’’ بیٹا یہ شہر اب پہلے جیسا نہیں رہا،ہم پرندوں کو کھلی ہوا اور تازہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے یہاں تو سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے " ۔
چاند کو اپنے شہر سے بہت محبت تھی۔ لیکن اب یہ شہر ان کے لیے نقصان دہ ہو چکا تھا۔ اگلے دن اس نے فیصلہ کیا کہ کہ وہ شہر سے باہر جائے گا اور دیکھے گا کہ کیا کہیں اور زندگی بہتر گزاری جاسکتی ہے۔
وہ دوستوں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد اپنے والدین کو لے کر شہر کے شمال کی طرف اڑ گیا۔ جیسے ہی وہ شہر سے دور ہوتا گیا اسے فضا میں تبدیلی محسوس ہونے لگی ، دھواں اور شور کم ہوتا گیا اور آسمان دوبارہ نیلا نظر آنے لگا۔
وہ ایک سر سبز علاقے میں پہنچے،جہاں درختوں کی قطاریں تھیں اور ندیوں کا پانی صاف تھا، اس نے وہاں کے دوسرے پرندوں سے بات کی، جو خوش اور صحت مند نظر آرہے تھے۔ چاند نے سوچا کہ کیا وہ ہمیشہ کے لیے یہاں رہ سکتا ہے ؟کچھ دن تو بہت اچھے گزرے، مزے سے وہ گھومتے، پھرتے، ندی کے شفاف پانی سے اپنی پیاس بجھاتے۔
یہاں کا سر سبز اور خوشگوار ماحول انہیں بہت اچھا لگا، مگر ایک دن اپنے پرانے شہر کی یاد آنے لگی۔ اپنی امی سے مشورہ کر کے کراچی کی طرف روانہ ہوا یہ دیکھنے کے لیے کہ وہاں کچھ تبدیلی آئی ہے یا وہاں کی فضا جوں کی توں ہے، مگر اسے اپنے شہر کراچی میں آکر یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ شہر کے کچھ حصے بدلنے لگے ہیں کچھ جگہوں پر لوگوں نے درخت لگانے شروع کر دئیے اور کچھ علاقوں میں صفائی کی مہمیں چلائی جا رہی تھیں۔
چاند کو امید کی ایک کرن نظر آئی وہ واپس اپنے خاندان کے پاس آیا اور انہیں بتایا کہ شہر کے لوگ آلودگی ختم کی کوشش کر رہے ہیں ۔چاند اور اس کا خاندان دوبارہ پرواز کرتے ہوئے واپس ہوئے اور پھر سے انہوں نے پیپل کے درخت پر بسیرا کر لیا۔
یہاں ہوا قدرے صاف ہوگئی تھی اور فضا میں تازگی بھی آگئی تھی۔ چاند کے گھر والوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کراچی شہر کو نہیں چھوڑیں گے۔ کیونکہ انہیں پوری امید تھی کہ ایک دن کراچی دوبارہ خوبصورت اور صاف ستھرا شہر بن جائے گا۔
بچو! اس کہانی میں یہ پیغام ہے کہ اگر چہ شہر کراچی میں آلودگی ایک بڑا مسئلہ، لیکن ہم سب کو مل کر اپنے شہر کی صفائی کا خیال رکھنا ہے۔ ابتداء اپنی گلی محلے کو صاف کرنے سے کریں۔