لندن (پی اے ) طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ریگولیٹر نے دعویٰ کیاہے کہ برطانیہ میں جلد ہی ڈاکٹرز کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہوگی ،جنرل میڈیکل کونسل کا کہناہے کہ خواتین اور مرد ڈاکٹروں کی شرح کم وبیش یکساں ہوچکی ہے۔ جنرل میڈکل کونسل کے مطابق گزشتہ سال برطانیہ میں لائسنس یافتہ ڈاکٹروں میں 49 فیصد خواتین تھیں اور اگرچہ اس رجحان میں حالیہ برسوں کے دوران کچھ کمی آئی ہے لیکن 2023میں خواتین ڈاکٹروں کی شرح میں اضافہ ہوا اور گزشتہ سال آنے والے ڈاکٹروں میں خواتین کا تناسب 52فیصد تھا،جبکہ پیشہ چھوڑ کر جانے والوں میں 54فیصد مرد تھے، توقع کی جاتی ہے کہ بہت جلد خواتین ڈاکٹروں کی تعداد مرد ڈاکٹروں سے بڑھ جائے گی۔2019سے 2023 ویلز میں خواتین ڈاکٹروں کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، جبکہ انگلینڈ دوسرے ،شمالی آئر لینڈ تیسرے اور اسکاٹ لینڈ چوتھے نمبر پر رہا۔2023میں ملک کے چاروں علاقوں میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں خواتین کی شرح کم وبیش 60فیصد تھی۔جبکہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں سیاہ فام پس منظر سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد سفید فام طلبہ سے زیادہ تھی۔جی ایم سی کی رپورٹ میں کہا گیاکہ یہ ضروری ہے کہ ڈاکٹروں کی کام کی زندگی میں کسی بھی قسم کی امتیازی سلوک یا غیر منصفانہ سلوک کو بے نقاب کیا اور اسے ختم کیا جائے تاکہ تمام ڈاکٹر اپنے مکمل صلاحیت کے مطابق خدمات انجام دے سکیں۔ جی ایم سی کا کہناہے کہ اس میں تمام فریقوں کا کردار ہے۔ 2022 اور 2023 کے درمیان برطانیہ میں مجموعی طور پ لائسنس یافتہ ڈاکٹروں کی تعداد میں 2011 میں جی ایم سی ریکارڈز کے آغاز کے بعد سب سے تیز رفتار سے بڑھا۔ اس دوران ڈاکٹروں کی تعداد میں6فیصد کا اضافہ ہوا، جو 2011 سے سال بہ سال اوسط نمو2.6فیصد سے دگنا ہے، جی ایم سی کا کہنا کہ غیر ملکیوں کی طرف سے مقامی ملازمتوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔ مقامی طور پر ملازمت کرنے والے ڈاکٹروں کا مطلب ہے وہ میڈیکل پروفیشنلز جو ٹرسٹس کیلئے مقامی معاہدوں پر کام کرتے ہیں اور عام طور پر غیر مستقل اور غیر تربیتی عہدوں پر ہوتے ہیں، جن کی شرائط و ضوابط پر قومی سطح پر اتفاق نہیں ہوتا۔ انگلینڈ اور ویلز میں 2019 اور 2023 کے درمیان مقامی طور پر ملازمت کرنے والے ڈاکٹروں کی تعداد 75فیصد بڑھ کر 21,000 سے 36,831 ہوگئی۔ اسی دوران، اسپیشلسٹ رجسٹر پر ڈاکٹروں میں 13فیصد اور جی پی رجسٹر پر ڈاکٹروں کی تعداد میں 9 فیصدکا اضافہ ہوا۔ جی ایم سی کے چیف ایگزیکٹوچارلی میسی کہنا ہے کہ مقامی طور پر ملازمت کرنے والے ڈاکٹروں کے پاس ہماری صحت کی خدمات کے لیے بہت کچھ ہے۔ لیکن اکثر وہ خود کو ایسے کرداروں میں پاتے ہیں جن میں انہیں اپنی مہارتوں کو ترقی دینے کے لیے مناسب تعلیم اور تربیت تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر ہم تربیت کے بارے میں اپنے انداز کو تبدیل نہیں کرتے، تو برطانیہ ایک ایسی صورتحال میں قدم رکھ سکتا ہے جہاں ان ڈاکٹروں کو نظرانداز کیا جانے لگے گااور انھیں کم اہمیت دی جائے گی، جو کہ مریضوں کی اچھی دیکھ بھال کے لیے نقصان دہ ہوگا ۔ رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے، تھنک ٹینک کنگز فنڈ کی سوزی بیلی کا کہناہے کہ مریض ابھی بھی ڈاکٹروں تک رسائی میں مشکل محسوس کر رہے ہیں اور ہسپتالوں میں علاج کے منتظر مریضوں کی فہرست 7.6 ملین تک پہنچ چکی ہے، انھوں نے کہا کہ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ رجسٹر پر ڈاکٹروں کی تعداد پچھلی دہائی میں تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ نئے ڈیٹا سے بھی یہ واضح ہے کہ صرف نئے ڈاکٹروں کی بھرتی کافی نہیں ہے، مناسب تربیت اور مدد کی ضرورت ہے، جو کہ ایک کشیدہ صحت کے نظام میں کم دستیاب ہو سکتی ہے۔ بیلی نے یہ بھی کہا کہ مقامی طور پر ملازمت کرنے والے ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافے کی وجوہات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ان وجوہات میں کام کا لچکدار شیڈول، بہتر ورک لائف بیلنس کے بارے میں ممکنہ انتخاب اور مختلف ہسپتالوں میں سالانہ منتقلی سے بچنا شامل ہو سکتا ہے، جس میں مختلف علاقوں میں منتقل ہونا بھی شامل ہے،انہوں نے کہا کہ تاہم ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ ڈاکٹر نسل پرستی، ناکافی تعارف، پہچان کی کمی، تربیت اور کیریئر کی ترقی تک ناقص رسائی کا سامنا کرتے ہیں۔ جی ایم سی نے کہا کہ برطانیہ میں ڈاکٹروں کے پیشے کو چھوڑنے کی شرح 4 فیصد پر مستحکم ہے، حالانکہ ایسی علامات ہیں کہ مزید ڈاکٹر مستقبل میں استعفیٰ دینے یا اپنے کام کے اوقات کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ استعفیٰ دینے کی سب سے بڑی وجہ بیرون ملک پریکٹس کرنے کی خواہش تھی، اور آسٹریلیا برطانیہ کے ڈاکٹروں کے لیے سب سے پسندیدہ منزل بنی ہوئی ہے۔