تحریر: سفیان وحید… کراچی دنیاکی موجودہ صورتحال ،سازشوں اورجنگوں نےامریکا،مغربی ممالک اور امت مسلمہ کاکئی معاملات میںعالمی سطح کے اتحاد کی اہمیت کودوچندکردیا ہے۔جو جنگ بڑی حکمت سے روکنے کی سرتوڑ کوشش کر کے سفارتی ذرائع سے امن بحال ہونے کی امید پیداہوگئی تھی اب لگتا ہے ناٹو افواج کے Locomotion کرجانے پر پھیل سی جائے گی۔ ایک جانب روس اپنے قریبی اتحادی انڈیا کو لیکر بڑی خاموشی سے بحر ہ عرب کے کنٹرول حاصل کرنے کا کھیل کئی برسوں سے کھیل رہا ہے۔سوویت یونین نے افغانستان میں جو فوجی مداخلت کی تھی یہ دراصل گرم پانی کا حصول بالخصوص بحرہ عرب کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش تھی۔جنگ افغانستان میں لڑی جارہی تھی لیکن اصل نگاہ پاکستان پرتھی اور مقصدیہ تھا کہ سمندری محاذ پرعجم و عرب کے مسلم ممالک پرکنٹرول حاصل کیاجاسکے۔پاکستان بھی فکر مند رہا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم کمیونیزم اور سیکولرازم کے درمیان سینڈویچ بن جائیں تب تو سمندری حدود کے تحفظ کو یقین بنانا ہی تھا لیکن معاملہ افغان باشندوں کے درمیان گھس بیٹھیے دہشت گرد القاعدہ کے عناصر کا تھا جو افغانستان سے بیٹھ کر پاکستان کو الجھائے رکھنا چاہتے تھے۔تب مملکت خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان نے طویل عرضے تک دہشت گردی خاتمے کی جنگ لڑی جو اب بھی جاری ہے۔ یہ جنگ دنیا کے امن کے لئے لڑی گئی ۔ بظاہر یہ سب کچھ ایسا نظرآرہاتھا کہ معاملہ دہشت گردی کے خاتمے پرتھم جائے گالیکن ایسانہیں ہوسکا۔مسلمان اور مسلم حکمران کئی برسوں سے مغربی اتحاد اور امریکی قیادت کے شانہ بشانہ ہیں ۔یہ بھانپ لیا گیاتھا کہ روس ضرور بحر عرب آ ئے گا تب سے مسلم حکمران کولیکر سمندری و علاقائی تحفظ کا مغربی اتحاد امریکی قیادت میں شانہ بشانہ ہیں اور جہاں علاقائی و سمندری و فضائی تحفظ پر سب یکجاں ہوئیں تب یہ بھی امت مسلمہ و مسلم حکمرانوں نے سوچا کہ اقوام متحدہ کی قرارداروں کو بھی تصفیہ طلب مسائل کو حل کرلینے پر فتح سے ہمکنار کیا جائے اور یہودی عیسائی و مسلمان کے مشترکہ مستقبل مفادات کے تحفظ کو عملی شکل دینا ہوگی۔ مغرب امریکہ کنیڈا برطانیہ فرانس جرمنی و اٹلی سمیت تمام ہی یورپی ممالک اس پورے معاملے کوباریک بینی سے دیکھ رہے تھے ۔ تب مشرقی قوت نے بحر عرب پر مسلم ممالک سے سیاسی معاشرتی روابط بڑھانا شروع کردیئے تاکہ کسی طرح امریکی مغربی اتحادی و مسلم ممالک اتحاد کو ثبوتاڑ کیا جائے اور مسلم مغرب اتحاد بکھر جائے۔ اور ایسا زمینی راستہ نکالا جائے جو روسی قوت کو برق رفتار سواری کے مانند سمندر تک پہنچا سکے۔ سوویت یونین کی شکست بعد روس کے ہاتھ کچھ نہ تھا۔ ایسے میں چین دنیا کی تیز رفتار معاشی قوت بنتا دیکھائی دینے لگا جو دنیا کی معیشت کو سمیٹے زمینی معاشی سفر کی راہداری کو تیار کررہا تھا اور روس اپنی نگاہ گاڑا ہوا تھا۔ امریکا نے صورتحال کوبھانب لیا تب امریکی مغربی مسلم اتحاد کو لیکر سمندری و زمینی تحفظ پر اور مذید مضبوط ہوگیا۔ جہاں یہ سب کچھ ہورہا تھا وہاں انڈیا خاموش قدم سمندری راستے ایران کے چاربہار پر جاپہنچا اور عرب ممالک کو سمندری تجارتی تعلقاتی محاذ پر مسلم عربوں کو الجھا دیا۔ انڈیا نے اقوام متحدہ کو بھی دھوکہ دیا اور UN قرارداروں کا تمسخر بناتے ہوئے اسے جھٹلا دیا اور مقبوضہ کشمیر پر جبری قبضے کے منصوبے کو اپنی عدالت عظمی سے منظور کروالیا ۔دوسری جانب روس نے بھی یوکرین کی آزاد خودمختار ریاست پر حملہ کرڈالا تاکہ وہ مغرب کو بلیک میل کرسکے اور برسوں پرانے گرم پانی پرتسلط کے حصول پر انڈیا کی مدد سے زمینی راہداری کے سفر کو بھی اپنی افواج کے لئے ممکن بناسکے۔ دوسری جانب امریکہ نے عرب مسلم و عجم مسلم حکمرانوں کو لیکر دنیا میں ایک خدا کے مانے والے تین عقائد کے مشترکہ مستقبل فیصلے کو توسیع دی جو تسلسل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ معاہدے کے باعث تھا او رموجودہ حالات کے مطابق ابراہیم ایکارڈکے ذریعے اسے مزید مضبوط کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے معاہدے تحت یہودی عیسائی و مسلمان سرزمین مقدسہ پر عبادت و زیارت کا برابر حق و اختیار رکھتے رہیں گے۔ یہ معاملہ روس و مشرقی ابھرتی اتحادی قوت بھی دیکھ رہے تھے تب یوکرین جنگ کابحران طول پکڑگیا۔کوشش کی گئی کہ جنگ کوزمینی راستے سے وسعت دی جائے اور یروشلم تک روسی مداخلت کوعملی جامہ پہنایا جائے۔اس دوران اچانک غزہ اور دیگرفلسطینی علاقوں پر اسرائیل حملے سے خطے میں امن کے قیام کے لئے سفارتی کوششیں ناکام ہوگئیں ۔بعض طاقتیں نہیں چاہتی تھیں کہ خطے میں دوریاستی حل اور تین عقائد کسی معاہدے پرمتفق ہوجائیں ۔امریکہ یہ اعلان کرچکا ہے کہ غزہ کی پٹی جنگ سے قبل کی طرح جنگ کے بعد بھی فلسطینیوں کی سرزمین ہی رہے گی ویسٹ بنگ کاکنٹرول محمودعباس کے ہاتھ میںہوگا۔ حالات بتارہے ہیں کہ یہ جنگ مزید پھیلتی جائے گی۔ ناٹوایک وقت تک روسی جارحیت کوبرداشت کرے گا لیکن اسے مجبورا جنگ کے میدان میں اترنا پڑے گااور ان حالات میں سمندر کے معاملات میں امریکا اور مسلم ومغرب کو مضبوط اتحادکامظاہرہ کرنا ہوگا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ انڈیاہمیشہ امریکا،برطانیہ ،کینیڈا ،فرانس اور جرمنی سمیت مغربی ممالک اور مسلم ممالک کے کسی بھی قسم کے اتحاد کا سخت مخالف رہا ہے اس لئے عجم و عرب مسلم ممالک ،عیسائی اور یہودی ممالک کو انڈیا کی مکاریوں اور مفاد پرستی سے بچنے کے لئے محتاط رہنا ہوگا۔ان حالات میں ضروری ہے کہ ہر ملک اپنی جغرافیہ کاتحفظ کرے اور اندرونی طور پرسیاسی بے یقینی کے خاتمے کے لئے اقدامات کرے ۔کسی بھی جمہوری ملک میں آئین کابالادست ہونا مملکت کی بقا اور سربلندی کے لئے انتہائی اہم اور ضروری ہے ۔