فکر فردا … راجہ اکبر داد خان محبت میں جڑے دلوں کی یہ گفتگو ہمارے ماحول کی وہ تصویر ہے جو ہمارے معاشرہ میں اکثر افراد کو وقتاً فوقتاً درپیش رہتی ہے۔ ہم پاکستانیوں کی محبت کی معراج ہمارا دین اور ملک ہے جسے ہر کوئی اپنے انداز میں حصہ ڈال کر اس محبت کی لمس سے محفوظ ہوتا ہے۔ ملک سے محبت نہایت گہرا رشتہ ہے، جو وقت کے خوفناک ارادوں سے لڑ جھگڑ کر بھی نہ کم ہوتا ہے اور نہ ہی کمزور، پاکستان سے یہی محبت مجھے بھی چند ہفتوں کے لیے وہاں لے گئی، ہوائی سفر سے جڑی تکلفیات اور موسمیاتی دشواریاں میرا راستہ نہ روک سکیں۔ کرپشن سے پہلا واسطہ اسلام آباد ائر پورٹ پر پڑا، بیگیج ہینڈلر کو رشوت دینی ہی پڑی۔ حکومت کا کرپشن فری ائر پورٹ کا بیانیہ میرے لیے وہاں ہی دم توڑ گیا۔ تقریباً چار سال بعد ملک واپسی پر سب سے زیادہ جو چیز دیکھنے کو ملی وہ شہر اور گاؤں کی زندگی میں یکسانیت تھی اونچے اونچے خالی فلیٹس کی قطاریں اور نئی تعمیر شدہ بند دکانوں کی بہتات معیشت کے لیے ایک حد تک ہی اچھی خبر ہے۔ ہر طرف نئے تعمیر شدہ فلیٹس اور تجارتی پلازے جو تقریباً ہر شہر میں پائے جاتے ہیں، کسی دیوانے کا خواب ہوسکتے ہیں کہ پاکستان راتوں، رات امریکی ڈالروں، ریالز اور کینیڈین ڈالر سے بھر دیا گیا ہے اور یہ دولت پاکستان کی اکانومی کو اتنا اونچا اٹھا دے گی کہ ہر شہر کی یہ بند دکانیں اور پلازے جلد فائدہ اور منافع دینے والے مراکز بن جائیں گے۔ آزاد کشمیر میں بھی ملتے جلتے حالات ہیں۔ حکمرانوں کو سوچنا پڑے گا کہ آخر کس کی غلط کال پر قوم کا کیش سرمایہ گارے مٹی کی مورتیوں کی شکل میں ہمارے سامنے بے بسی اور مایوسیوں کی تصویر بنے کھڑا ہے۔ بات کرنے پر ہر طرف سے یہی جواب ملتا ہے کہ ماضی قریب کی حکومتوں نے لوگوں کو بیرونی انوسٹمنٹ کے طفیل ملکی معیشت کے اوپر اٹھنے کے وہ خواب دکھائے کہ لوگ جھانسے میں آگئے۔ راولپنڈی ڈویژن، کے پی اور آزاد کشمیر میں سیمنٹ، سریے کی یہ خالی تعمیرات ہر قدم پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ میرے اپنے خاندان کی درجنوں پراپرٹیز جو چار سال قبل کرایہ نہیں اپنے قیام کے دوران شادی بیاہ اور دیگر سماجی تقاریب کے دوران یہ تجربہ ہوا کہ لوگ سیاست سے مایوس ہیں اور صورت حال کے لیے ہر سطح کے سیاستدان قومی سطح کی لیڈر شپ مائنس عمران خان کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جو مرکز اور صوبوں میں حکومت کا مزہ چکھ کر سیاسی طاقت کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، بس میڈیا ہی کے ذریعہ زندہ رکھے جارہی ہیں۔ حکومتی اتحاد کے لوگ بھی تسلیم کرتے ملتے ہیں کہ ملک کی حقیقی اور نمائندہ سیاسی قوت تحریک انصاف ہی ہے۔ مجھے حکومت کے غیر نمائندہ ہونے اور اچھل کود کے ذریعہ عوام کو متاثر کرنے کی کوششوں کی ناکامی پر کوئی حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے باوجود اپنا وزن نہیں اٹھا پا رہی، جب عمران خان اقتدار میں تھا تو اس کو میڈیا کی بھرپور توجہ ملنا کوئی انہونی بات نہ تھی، مگر اڈیالہ کا یہ باسی جس طرح آج بھی ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، اس کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسلم لیگ ن اور پی پی دونوں تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان ہے۔ جو ان سے حل نہیں ہو پا رہا ہے۔ بحث کے لیے اگر یہ بیانیہ تسلیم کرلیا جائے تو اس مسئلہ کے حل کے لیے ان دونوں جماعتوں کے پاس سیاسی اتحاد اور انتظامی اختیارات کی بے پناہ قوت موجود ہے جو مسئلہ حل کرواسکتے ہیں، پاکستان میں ایک مضبوط رائے موجود ہے جو عمران خان کے لیے کسی دیرپا اور اچھی ڈیل کی منتظر ہے۔ پتھروں پر چل کر مملکت پاکستان کا میرا یہ سفر مشکل ضرور تھا مگر مطمئن ہوں کہ یہ کٹھن قدم اٹھایا، مگر ملک میں سیاسی عدم استحکام نے مایوس کیا۔ واپسی پر روانگی سے قبل رات راولپنڈی میں گزارنی پڑی اور ہمارے ہوٹل کے بازو میں چلتی مشہور اڈیالہ روڈ جو وہاں خان کی موجودگی کی وجہ سے اب زیادہ مشہور ہوگئی ہے، یہ جاننے کا اتفاق ہوا، خان جس طرح قید کی صعبتوں کو برداشت کررہا ہے جس طرح وہ ملک کو اوپر اٹھانے کے منصوبہ جات عوام کے سامنے رکھ رہا ہیا ور پاکستان کے لیے ایک روشن مستقبل کی نوید بنا ہوا ہے، ایسے ہرکولین اقدامات صرف عمران خان ہی سوچ سکتا ہے۔ لوگ جلد خان کی رہائی کے لیے پرامید ہیں اور پی ٹی آئی کی قیادت اس کی رہائی کے لیے ایک طاقتور مہم چلا رہی ہے اور معاملات اس طرح پر پہنچ چکے ہیں، جہاں حکومت کے لیے خان کی رہائی کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ محبتوں کے تعاقب میں سفر کسی زمانہ میں بھی آسان نہیں رہے، ہر بڑھتے دن کے ساتھ دشواریاں اپنی جگہ بڑھتی جارہی ہیں اور مادر ملک کے ساتھ محبت زیادہ گہری ہوتی جارہی ہے، اللہ کرے محبتوں میں بٹے یہ رشتے قائم و دائم رہیں،امین۔