اقوامِ متحدہ کے ایک سو ترانوے رکن ممالک میں سے تیرہ کی سربراہانِ حکومت خواتین ہیں جن میں سے سات ملک یورپ کے ہیں۔ 1960 سے 2023ء تک انسٹھ ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین سربراہِ حکومت رہ چکی ہیں۔ وہ ممالک جہاں عورتوں نے سب سے زیادہ حکمرانی کی ہے ان میں بنگلہ دیش سر فہرست ہے، جہاں عورتوں کی حکمرانی کا عرصہ انتیس سال رہا ہے جبکہ سری لنکا بائیس سال کے ساتھ دوسرے، ناروے اٹھارہ سال کے ساتھ تیسرے، انڈیا، نیوزی لینڈ اور جرمنی سولہ، سولہ سال کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔ پاکستان کے قیام اور اس کے بعد بھی خواتین کا حکومت سازی اور اعلیٰ سرکاری مناصب پر ایک قابل توجہ حصہ رہا ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں محترمہ بے نظیر بھٹو اس ملک کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔
اب تیرہ کروڑ آبادی کے صوبہ پنجاب میں سابق وزیرِ اعظم محمد نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ مریم نواز کو قیام پاکستان کے بعد پنجاب کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ بننے کا اعزاز نصیب ہوا ہے اور اس حوالے سے یہ اعزاز یکتا بھی ہے کہ وہ ایک جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ہوکر اس منصب تک پہنچی ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر کہا تھا کہ خواتین میری ریڈ لائن ہیں، ان پر تشدد یا ظلم کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ماں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت معاشرتی روایات اور مذہبی اقدار ہیں اور اسلام میں عورت کو مکمل عزت و احترام اور حقوق دینے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ قبل ازیں یومِ خواتین کے موقع پر وہ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں خواتین کے جاب کوٹہ کو دس سے بڑھا کر پندرہ فیصد کرنے کا اعلان کرچکی ہیں اور ہر محکمے میں خالی اسامیوں پر خواتین کی بھرتی مکمل کرنے کی ہدایت بھی کردی تھی۔ ان کا یہ بھی اعلان تھا کہ ورک پلیس پر ڈے کئیر سینٹرز بنانے کے لیے ایک ارب روپے کا فنڈ مختص کیا جائے گا، ورکنگ وویمن کے لیے ہوسٹل بنائے جائیں گے اور خواتین کے لیے پیڈ انٹرن شپ شروع کی جائے گی، اس ہی طرح آن لائن بزنس کے لیے خواتین کو پچاس فیصد تک قرضے دیئے جائیں گے۔ بورڈ آف ریونیو بیٹیوں کے حصہ کا تعین کرکے ورثہ کو جائیداد منتقل کرے گا اور بہن اور بیٹی کو پراپرٹی گفٹ کرنے پر انتقال فیس نہیں لی جائے گی۔
جمنازیم اور اسٹیڈیم میں خواتین کے لیے الگ جگہ اور اوقات کار مقرر کیے جائیں گے، اسی طرح حکومتی اداروں میں خواتین کے لیے الگ واش روم اور نماز کے لیے جگہ مختص کی جائے گی، بالخصوص لڑکیوں رائیڈر کو پنک بائیک دی جائیں گی اور اس کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے گی جس پر عمل درآمد ہوچکا ہے اور ہمیں خواتین نہ صرف بائیک و اسکوٹی چلاتی نظر آرہی ہیں بلکہ وہ اسے ذریعہ روزگار بھی بناتے ہوئے اپنے گھروں کی کفالت بھی کرتی نظر آرہی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ اب ماں باپ کو اپنی بیٹیوں کو اعتماد، اعتبار اور مواقع دینے ہوں گے اگر ہماری بیٹی یا بہن انجینئر یا ڈاکٹر بننا چاہتی ہے تو اسے بننے دیا جائے، بیٹی پڑھنا چاہتی ہے یا کھیلنا چاہتی ہے تو اسے آگے آنا کا موقع ملنا چاہیے۔
اس میں کیا شک ہے کہ مذاہب عالم میں خواتین کی حرمت و عظمت کا کوئی معیار نہ تھا۔ روم، یونان، ایران، ہندومت، یہودیت، عیسائیت اور عرب دور جاہلیت میں بھی عورت کا کوئی معاشرتی مقام نہ تھا، اُس کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہ تھی۔ رومہ تہذیب و معاشرت میں عورت کو کسی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہ تھا۔ گویا اسلام سے قبل معاشرہ میں عورت کا کوئی مقام و مرتبہ نہ تھا لیکن حضور اکرم ﷺ نے یہ تعلیم دی کہ عورت کا درجہ اور مرتبہ اسلام میں اتنا ہی بلند ہے جتنا کہ مرد کا۔ حیثیت، حقوق اور اخروی انعامات میں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ آپؐ نے اپنے عمل سے دنیا کو یہ درس دیا کہ عورت بھی اتنی ہی عزت کی حق دار ہے جتنا کہ مرد، البتہ اسلام میں دونوں کے لیے حدود مقرر کردی گئی ہیں۔ انسانیت کو مرد اور عورت کی صنفی تقسیم کے ساتھ پیدا کرنا ہمیں پیدا کرنے والے کی منصوبہ بندی ہے اور اس تقسیم کو باقی رکھنے میں ہی انسانی زندگی کی بقا اور ترقی ہے۔ اسلام میں عورت کو اعلیٰ مقام و مرتبہ سے نوازاگیا ہے لیکن اس کے باوجود اگر آج بھی خواتین اپنے حقوق و مرتبہ، وراثت و عزت سے محروم ہیں، ان سے بقول شخصے برابری کا سلوک نہیں کیا جارہا، اس کی بڑی وجہ قرآن و سنت سے دوری ہے۔
بات اتنی سی ہے کہ پاکستان میں ہر سرکاری اور نجی شعبے میں خواتین مردوں سے بڑھ کر کام کررہی ہیں لیکن اس کے باوجود معاشرے میں جو گھٹن اور تعصب پایا جارہا ہے، اس کا خاتمہ اب لازمی ہوگیا ہے۔ یہ ہمارے محراب و منبر کے مسند نشینوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اور سیرت رسولﷺ کی روشنی میں خواتین کے مقام و مرتبہ اور حقوق و فرائض کو اجاگر کریں اور نماز جمعہ کے خطبات میں ہی نہیں بلکہ ہر اس مقام پر جہاں انہیں سنا جاتا ہے وہ اس پر بات کریں بالعموم دیکھا گیا ہے کہ سیرت النبی ؐکے مختلف واقعات تو بیان کیے جاتے ہیں لیکن خواتین کے حوالے سے ان کی اسلام کے لیے کی جانے والی کوششوں، کاوشوں اور قربانیوں، اخلاص پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی جاتی جیسا کہ اشاعت اسلام کے لیے مالی طور پر دل کھول کر اپنا سب مال و متاع وقف کرنے اور عصر حاضر میں اس کی افادیت کے بارے بالتفصیل بیان کرنی چاہیے۔ جنگوں میں خواتین کا جو کردار رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے لایا جانا چاہیےاور جو شخص جس شعبے میں بھی ہے وہ مرد اور عورت کی تفریق کیے بغیر اپنے حصے کا کام پوری ایمان دارے کے ساتھ کرے، خواتین کو احترام دے، ان کا معاون بنے اور انہیں اُسی نظر سے دیکھے جس سے وہ اپنی ماں، بہن اور بیٹی کو دیکھتا ہے پھر دیکھئے گا کہ ہمارا معاشرہ کس طرح تبدیل ہو جاتا ہے۔
بقول شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دُروں