• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد صادق کھوکھر … لیسٹر
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کو عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ سیاست کو عوام کی خدمت کی بجائے ایک مشغلہ سمجھتے ہیں، ان کی ساری جدو جہد اقتدار کی ہوس کیلئےہوتی ہے، اس ہوس کی تکمیل کیلئے یہ جھوٹے سچے وعدے کرتے ہیں مثلا" گزشتہ الیکشن میں کچھ پارٹیوں نے بجلی کے سیکڑوں یونٹ مفت دینے کے وعدے کچھ اس انداز سے کئے تھے جیسے منتخب ہوتے ہی عوام کو بجلی مفت ملنا شروع ہو جائے گی، غریب اور مصائب کے شکار عوام اس طرح کے وعدوں کے فریب میں آجاتے ہیں اور بار بار دھوکا کھاتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ ہمارے سیاست دانوں کو عوام کے مسائل کا سرے سے ادراک ہی نہیں بلکہ وہ اپنے نفس کی آسودگی کی خاطر عوام کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں، مسائل حل ہونے کی امیدوں اور آرزوؤں میں عوام زندگی گزار دیتے ہیں، وہ اپنے رہنماؤں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں، جھوٹے سچے واقعات بیان کر کے نہ صرف خود فریبی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی دھوکا دیتے ہیں، اس طرح یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا جاتا ہے، آخر ایک وقت آتا ہے جب ان خوابوں کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے، اس وقت تینوں بڑی پارٹیاں اقتدار میں ہیں، مسلم لیگ پنجاب اور مرکز پر قابض ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ اور مرکز میں شریکِ اقتدار ہے، پی ٹی آئی بھی کے پی کے میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے، گویا تینوں بڑی پارٹیوں کو مختلف علاقوں میں اقتدار ملا ہوا ہے، اگر یہ اپنے اپنے دائرہ کار میں جانفشانی سے کام کریں اور ثابت کر دیں کہ یہ دوسروں سے بہتر کار کردگی دکھا سکتے ہیں تو یقینا" انہیں عوام میں پذیرائی ملے گی۔ لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا، وجہ بالکل عیاں ہے کہ سیاست دانوں کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی ساری توجہ کلی اور دائمی اقتدار پر مرکوز ہے، یوں سیاست دانوں کی ساری توانائیاں اقتدار کے حصول کی خاطر صرف ہو جاتی ہیں، ملکی وسائل کا بڑا حصہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کے پروٹوکول کی نذر ہو جاتا ہے اور باقی ماندہ اقتدار بچانے میں صرف ہو جاتا ہے، دوسری طرف یہ بھی حیرت انگیز بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں خاص طور پر بڑی سیاسی جماعتیں اراکینِ اسمبلی کی مراعات کے معاملہ میں یکجا ہو جاتی ہیں۔ یہ صورتِ حال بار ہار دیکھنے میں آئی ہے کہ جب اس طرح کے بل اسمبلی میں پیش ہوتے ہیں تو عموما" بالاتفاق چند منٹؤں میں منظور ہو جاتے ہیں۔ لیکن عوام کی فلاح و بہبود اورملکی تعمیر و ترقی کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی، اقتدار کے تحفظ کے لیے آئینی ترمیم پاس کرنی ہو تو رات بھر جاگ کر گزار دیتے ہیں، اپنے ذاتی مفاد کیلئے دھرنے دیئے جاتے ہیں، شہروں کی ناکہ بندیاں کی جاتی ہیں۔ الزامات کی بوچھاڑ ہوتی ہے لیکن عوام کو کچھ حاصل نہیں ہوتا، وہ اپنی امیدوں اورتمناؤں کی تکمیل کیلئےمنتخب نمائندوں سے بڑھ کر قربانیاں پیش کرتے ہیں لیکن ان کی آرزوؤں کا بار بار خون ہوتا ہے، ایسے ناگفتہ حالات میں قابلِ غور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتِحال میں عوام کو کیا کرنا چاہئے، کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ عوام شخصیات کی بجائے افکار و مسائل کو سیاست کا موضوع بنائیں، شخصیات فانی ہوتی ہیں لیکن افکار اور نظریات دیر پا رہتے ہیں، اگر ہمارے دانشور نظریات کو اہمیت دیں اور عوام کی تربیت کریں تو سیاسی جماعتیں بھی نظریات کو اہمیت دیں گی ورنہ عوام بلا وجہ متکبر شخصیات کی خواہشات کی تکمیل کا ایندھن بنتے رہیں گے جس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، دوسری اہم بات یہ ہے کہ عوام کو الیکٹ ایبل اور نان الیکٹ ایبل کی بحث سے نکل آنا چاہئے، ووٹ صرف اہل اور ایمان دار شخص کو دینا چاہئے، آزمائے ہوئے افراد کو بار بار آزمانا عقل مندی نہیں بلکہ ایسے خاندانوں سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے، جو سیاست کو اپنی میراث سمجھتے ہیں، ان کی بجائے ووٹ ایسے افراد کو دیں جو بکاؤ مال نہ ہوں بلکہ باصلاحیت اور پڑھے لکھے اور کام کرنے والے ہوں اور انہیں کم از کم انہیں اتنی فہم و فراست اور سمجھ بوجھ ضرور ہو کہ ملکی مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے، آخری قابلِ غور بات یہ ہے کہ جو جماعتیں پارٹی انتخابات نہیں کراتی، ان کی حمایت کرنے کا کیا فائدہ، ایسی پارٹیوں کے رہنما سارے اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے کارکنوں کو صرف اپنی رعایا تصور کرتے ہیں، اسی رویے نے ملکی اداروں کو پنپنے نہیں دیا۔ نتیجتًا ملک میں کوئی قابلِ عمل نظام جڑ نہیں پکڑ سکا، جب تک سیاست پر بالا دست خاندانوں کی اجارہ داری ختم نہیں ہو گی اس وقت تک ملک با صلاحیت افراد کی صلاحیتوں سے محروم رہے گا، مخصوص خاندانوں سے نجات پانا عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بہت ضروری ہے تاکہ باصلاحیت قیادت زمامِ کار سنبھال کر ملک کو ترقی کی شارع پر ڈال سکے، اگر ایسا نہ ہوا تو نا اہل سیاست دانوں کی بالا دستی ختم نہیں ہو گی، یہ چند گزارشات ہیں جن سے ہم اصل منزل کی طرف رواں دواں ہو سکتے ہیں۔
یورپ سے سے مزید