بیلاروس کے صدرالیگزینڈر لوکاشینکو کے حالیہ دورہ پاکستان کو اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ اسی ریجنل شفٹ کی پالیسی کا حصہ نظر آتا ہے جو ایک دہائی قبل سی پیک کے آغاز سے شروع ہوئی تھی۔ اس پالیسی کے تسلسل میں ہی 2017ءمیں پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی اور پھر رواں سال ایس سی او کا سربراہی اجلاس پاکستان میں منعقد کرکے اس پارٹنر شپ کو مزید مستحکم کیا گیا۔ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کے حوالے سے یہ تاثرزائل کرنے میں خاطر خواہ مدد ملی کہ وہ سفارتی طور پر تنہا نہیں ہے بلکہ امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ چین اور روس کے علاوہ وسطی ایشیا کے ممالک سے بھی اپنے تعلقات کو بہتر بنا رہا ہے۔ اسی طرح بیلاروس کے صدر کی آمد سے قبل آنے والے 68 رکنی وفد میں شامل بیلاروس کی حکومت کے اہم وزراء، حکومتی محکموں کے سربراہان اور اہم کاروباری شخصیات کی آمد بھی اس بات کا ثبوت تھی کہ یہ ایک روایتی دورہ نہیں ہے بلکہ دو طرفہ تعلقات کو اقتصادی تعاون اور اشتراک میں تبدیل کرنے کے روڈ میپ کا تعین کر لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کے اس تین روزہ دورے کے دوران دونوں ممالک نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی فنانسنگ سمیت دیگر جرائم کو روکنے، پاکستان نیشنل ایکریڈیشن کونسل اور بیلاروس کے ایکریڈیشن سینٹر کے درمیان تعاون کو بڑھانے کے علاوہ بین الاقوامی روڈ ٹرانسپورٹ کا انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے حوالے سے بھی اقدامات کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے سمجھوتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران روس اور پاکستان کے تعلقات تیزی سے بہتر ہوئے ہیں اور ستمبر میں روس کے ڈپٹی وزیر اعظم الیکسی اوورچک دو روزہ دورے پر پاکستان آئے تھے جس کے بعد ماسکو میں روس پاکستان انویسٹمنٹ فورم کا انعقاد ہوا۔ دوطرفہ تعلقات میں بہتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پاکستان کو نارتھ ساؤتھ کاریڈور میں شرکت کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ پیشکش بھی کر چکے ہیں کہ روس پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو گیس فراہم کر سکتا ہے۔ یہ پیشکش اس لحاظ سے اہم ہے کہ گیس پائپ لائن کے اس منصوبے کے حوالے سے قازقستان، ازبکستان اور روس میں پہلے ہی انفراسٹرکچر موجود ہے اور اگر پاکستان اس سہولت سے مستفید ہونا چاہے تو اس کیلئے زیادہ انتظار یا سرمایہ کاری نہیں کرنے پڑے گی۔ اسی طرح تجارتی تعلقات کو بڑھانےکیلئے پاکستان، روس، بیلاروس، قازقستان، ازبکستان اور افغانستان گزشتہ سال ایک ایم او یو سائن کر چکے ہیں جس کے تحت یہ ممالک مشترکہ طور پر ایک ٹرانسپورٹ کاریڈور تعمیر کریں گے جسے متوقع طور پر سینٹرل یوریشین کاریڈور یا ایس سی او کاریڈور کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ریل کاریڈور بھی زیرغور ہے جو ازبکستان، افغانستان اور پاکستان سے ہوتا ہوا انڈیا تک جائے گا۔ اس سلسلے میں روس کی طرف سے پاکستان کے افغانستان اور انڈیا سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے بھی کوششیں جاری ہیں اور ابتدائی طور پر تینوں ممالک میں دہشت گردی کے خلاف تعاون پر اتفاق رائے جلد متوقع ہے۔ ان حالات میں بیلاروس کے صدر کا دورہ پاکستان اس لحاظ سے اہم ہے کہ وہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اس لئے یہ بات خارج از امکان نہیں کہ وہ دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ روسی صدر کی طرف سے جاری کوششوں کے حوالے سے بھی کوئی اہم پیغام لے کر پاکستان آئے ہوں اور مستقبل قریب میں روس کے صدر بھی پاکستان کا دورہ کریں۔ یوکرین میں جاری جنگ کی طوالت کے باعث یورپ اور امریکہ کی پالیسی میں آنے والی حالیہ تبدیلیوں اور امریکی الیکشن میں ٹرمپ کی کامیابی نے اس حوالے سے روس اور چین کی کوششوں میں مزید تیزی پیدا کر دی ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید ٹرمپ کے صدر بننے سے قبل ہی ایس ای او ممالک کے مابین گیس کی سپلائی اور روڈ نیٹ ورک کی تعمیر کے ذریعے تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کے حوالے سے کوئی ٹھوس بریک تھرو ممکن ہو جائے۔ اس سلسلے میں روس نے طالبان کو ٹیررسٹ لسٹ سے نکالنے اور افغانستان کو شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر رکن کے طور پر نشست دوبارہ حاصل کرنے میں مدد کا بھی یقین دلایا ہے۔یہ وہ حالات ہیں جن میں پاکستان واضح طور پر ریجنل شفٹ کا ایک اہم کھلاڑی بن کر اپنی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے نئے امکانات اور شراکت داری کے موقع تلاش کر سکتا ہے۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ماضی کی اس پالیسی کو تبدیل کیا جائے جس میں ہمیشہ ایک بلاک سے فوائد حاصل کرنے کیلئے دوسرے بلاک کی مخالفت کی جاتی تھی یا کسی کی پراکسی بن کر جنگوں میں حصہ لیا جاتا تھا۔ ہمیں اگر اپنے ملک کی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا ہے تو اس کیلئے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے اور تجارت کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ سے تعلقات کو بھی خوشگوار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کسی تنازع کا حصہ بننے کی بجائے اپنا مثبت کردار ادا کر سکے۔ موجودہ حالات میں اگرچہ پاکستان کی ریاستی پالیسی تنازعات سے دور رہنے اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ معیشت کو بہتر بنانے پر مرکوز نظر آتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے حکومت کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کیلئے اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر غیر یقینی کی صورتحال ختم کرے۔