• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن: سارہ شریف قتل کیس کا فیصلہ آگیا، والد عرفان اور سوتیلی ماں مجرم قرار


لندن میں سارہ شریف قتل کیس کا فیصلہ آگیا۔ مقتولہ سارہ کے والد عرفان شریف اور سوتیلی ماں بینش بتول کو قتل کا مجرم قرار دے دیا گیا۔

لندن میں 10 سال کی سارہ شریف کی لاش ووکنگ میں گھر سے گزشتہ برس 10 اگست کو ملی تھی۔ 

دوران سماعت عرفان شریف نے سارہ کو آئے زخموں کی ذمہ داری قبول کرلی تھی جبکہ عرفان شریف نے سارہ کو دھاتی ڈنڈے، کرکٹ بیٹ اور موبائل فون سے مارنے کا اعتراف بھی کیا تھا۔

خیال رہے کہ سارہ کی لاش 10 اگست 2023 کو ووکنگ میں واقع اس کے گھر سے ملی تھی۔ سارہ کی لاش ملنے سے ایک روز قبل عرفان شریف، بینش بتول اور فیصل ملک پانچ بچوں کے ہمراہ پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔

سارہ کے والد 42 سالہ ٹیکسی ڈرائیور عرفان شریف، سوتیلی ماں 30 سالہ بینش بتول اور چچا فیصل ملک واقعے کے ایک ماہ بعد برطانیہ واپس آئے جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس نے طیارے کے دروازے کھلتے ہی اس میں جاکر تینوں کو ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا۔ اکتوبر کے وسط سے ان پر مقدمہ چل رہا تھا۔

مقدمے کی سماعت نے سب کو چونکا دیا، لندن کی اولڈ بیلی عدالت کو بتایا گیا کہ کس طرح سارہ کو 25 فریکچر ہوئے جن میں گردن کی ہڈی کا ٹوٹنا بھی شامل ہے۔

پیتھالوجسٹ اور ہڈیوں کے ماہر انتھونی فریمونٹ نے جیوری کو بتایا کہ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ’گردن کے کمپریشن‘ کا نتیجہ ہے جو عام طور پر ہاتھوں سے گلا گھونٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ سارہ کے جسم پر کاٹنے کے نشانات سمیت درجنوں زخم تھے جبکہ اس کے ڈی این اے کے ساتھ ساتھ اس کے والد اور چچا کے ڈی این اے کا پتہ کرکٹ کے بلے اور بیلٹ کے دونوں سروں پر پایا گیا تھا۔ سارہ کا خون ایک کیریئر بیگ کے اندر پایا گیا جس کے بارے میں خیال ہے کہ اس کے سر پر رکھا گیا تھا، جبکہ بھوری ٹیپ کے ٹکڑے پر خون اور بالوں کا پتہ چلا۔

ملزمان اپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کرتے رہے۔ ججوں کو بتایا گیا کہ بتول واحد مدعا علیہ تھی جس نے اپنے دانتوں کے نمونے فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

علم میں رہے کہ چند روز قبل ہی سارہ شریف کے قتل کی سماعت مکمل ہوئی تھی جہاں جج نے جیوری کو اپنا فیصلہ دینے کا کہا تھا۔ یہ جیوری 9 خواتین اور 3 مردوں پر مشتمل تھی۔ ہائیکورٹ کے جج نے جیوری ممبران کو ہدایت کی کہ اگر ہو سکے تو وہ ایک متفقہ فیصلے کے ساتھ واپس آئیں۔

جج نے جیوری سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ہر ملزم کے خلاف قتل کے متبادل الزام کے طور پر غیر ارادی قتل کی فرد جرم پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ 

بین الاقوامی خبریں سے مزید