• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارہ شریف قتل کیس، پراسیکیوٹرز کی کارروائی مکمل، وکلا دفاع کے دلائل شروع

لندن (سعید نیازی) 10سالہ سارہ شریف کے والد عرفان شریف کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس8اگست کو جب بنیش بتول کی کال پر جب گھر پہنچے تو سارہ بے جان جسم کو اپنے بازوؤں میں لیا تو مجھے لگا کہ میں بے جان ہوگیا ہوں، مجھ سے بولا نہیں جارہا تھا اور لگتا تھا کہ پوری دنیا مجھ پر آن گری ہے۔ سارہ شریف کے قتل کے مقدمہ میں پراسیکیوٹرز کے دلائل مکمل ہونے کے بعد دفاع کے وکلا کے دلائل شروع ہوگئے ہیں۔ قتل کے ملزم عرفان شریف نے عدالت کو بتایا کہ وہ گھر پہنچے، بیڈ روم میں سارہ کو بنیش بتول نے گود میں لیا ہوا تھا۔ اس موقع پر بنیش نے دعویٰ کیا کہ سارہ دوسرے بچے کے ساتھ شرارتیں کرتے ہوئے سیڑھیوں سے گر پڑی تھی اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہی تھی کہ وہ اٹھ نہیں سکتی، عرفان شریف نے بتایا کہ انہوں نے سارہ کا ایک بازو اٹھایا تو وہ گر پڑا، میں نے اس کے چہرے پر تھپتھپایا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا کہ پانی دو، بہت پیاس لگی ہے، میں نے بنیش کو پانی لانے کو کہا، لیکن وہ سوتی رہی اور آنکھیں نہیں کھولیں، اس کی سانسیں نہ چلتے دیکھ کر چیخ کر کہا کہ ایمبولینس بلواؤ اور اسے سی پی آر دیا، اس دوران بتول اردو میں کہتی رہی کہ اسے جگاؤ، یہ نہیں مر سکتی، لیکن15منٹ کے بعد بنیش نے مجھے گلے لگاکر کہا کہ اسے چھوڑ دو، یہ مر چکی ہے۔ عرفان شریف نے پوچھا کہ ایمبولینس کہاں ہے، تو بنیش نے کہا کہ کوئی فائد نہیں، یہ مر چکی ہے اور بینش نے ان کا فون بھی چھین کر کہا کہ اپنی فیملی کو بچاؤ، مجھے نہ تو اس وقت یقین آرہا تھا کہ میری بیٹی مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے اور اب آیا ہے، عرفان شریف نے کہا کہ اس نے سارہ کی آنکھیں بند کردیں اور بنیش اور فیصل ملک رونے لگے، اس نے بتایا کہ ابتدائی طور پر طے ہوا تھا کہ بنیش بتول فیملی کو لے کر رشتہ داروں کے پاس لوٹن چلی جائے گی اور پھر میں پولیس کو فون کرکے بتاؤں گا کہ سارہ میری کیئر میں انتقال کرگئی۔ بنیش نے اپنے خاندان کے افراد کو30کالیں کیں، لیکن انہوں نے خوف زدہ ہوکر مدد کرنے سے انکار کردیا۔ عرفان شریف نے بتایا کہ میں نے سارہ کے جسم کو صاف کرنے کی کوشش کی تو بنیش نے منع کردیا اور کہا کہ بے وقوفی مت کرو، عرفان شریف نے بتایا کہ وہ سارہ کے جسم پر سرخ نشان دیکھ کر حیران رہ گئے تو بنیش نے بتایا کہ دوسرے بچے نے اسے کاٹا تھا اور اس پر چڑھا ہوا تھا، عرفان نے بتایا کہ اس نے بچی کی موت کے حوالے سے اعترافی خط لکھا اور بنیش کی ہدایت پر یہ لکھا کہ ہم نے اسے کھو دیا ہے اور اسی رات پاکستان جانے کے لیے پرواز بک کی، عرفان نے کہا کہ اس طرح اپنی بچی کی لاش کو لاوارث چھوڑ کر جانا خودغرضی اور غیر انسانی تھا، عرفان نے10اگست کو پاکستان پہنچ کر سارہ کی لاش سے متعلق پولیس کو بتایا تھا، عرفان شریف، سوتیلی والدہ بنیش بتول اور چچا فیصل ملک کو گزشتہ برس13ستمبر کو واپس برطانیہ پہنچنے پر پولیس نے گرفتار کیا تھا اور ان پر قتل اور قتل کا سبب بننے یا اس میں مدد دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ عرفان شریف نے عدالت کو بتایا کہ وہ سارہ کی موت کا الزام اپنے سر لینے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اس کے جسم پر موجود زخموں کی تفصیل جاننے کے بعد اپنا ارادہ بدل دیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری ناک کے نیچے کیا کچھ ہورہا تھا، عرفان شریف یہ بھی کہ چکے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں تا کہ وہ کسی ’’ایول اور سائیکو‘‘ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک دن گھر آئے تو سارہ کے دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے ٹیپ سے بندھے ہوئے تھے، بنیش مجھے دیکھ پر پریشان ہوگئی اور میرے چیخنے چلانے پر اس نے معافی مانگی اور کہا کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کرے گی، لیکن اس کی بات پر یقین نہیں کرنا چاہیے تھا اور پولیس بلانی چاہیے تھی۔ اس کا خاندان کہہ چکا تھا کہ اس پر کالا جادو کرایا گیا تھا۔

یورپ سے سے مزید