گزشتہ 5دہائیوں سے پاکستان مختلف جمہوریتوں اور مارشل لاء حکومتوں کا شکاررہا ہے۔ ایک مضبوط ٹیکنالوجی پر مشتمل علمی معیشت (Technology based Knowledge Economy) کی طرف ہجرت کا رجحان بڑی حد تک غائب تھا جسکے نتیجے میں ہماری معیشت مسلسل پستی کا شکار رہی۔ متعدد جمہوری حکومتوںکے بعض بدعنوان اقدامات ،حکومتی معاہدوں میں بین الاقوامی توانا ئی کے پراجیکٹس (Power Projects) کے تناظرمیں جھلکتےہیں جنہوں نے ہماری صنعت کو تباہ اور عوام کو لاچار کر دیا۔ہمارے مسائل کے حل کیلئے موجودہ پالیسیوں میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس دور میں سماجی و اقتصادی ترقی میں علم کی اہمیت کو سمجھنا ہوگااور معیاری تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کو اپنی حکومتی پالیسیوں کا بنیادی ستون بنانا ہو گا۔ ہمیں فوری طورپر ایک ایماندار اورپر بصیرت تکنیکی ماہرین پر مشتمل حکومت کی ضرورت ہے۔تکنیکی ماہرین پر مشتمل انتظامیہ بدعنوانی کے امکانات کو کم کر سکتی ہے، کیونکہ ان کا انتخاب سیاسی وابستگیوں کی بجائے مہارت اور میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ماہرانہ صلاحیتوں اور تکنیکی مہارتوں پر مشتمل ایک ٹیکنوکریٹ حکومت پیچیدہ اور کثیر جہتی مسائل کو بہتر طور پرنمٹا سکتی ہے ۔ماہرین کی طرف سے تیار کردہ پالیسیوں کے قابل عمل ہونے کےامکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ایک ٹیکنوکریٹ حکومت جمہوریت کے صدارتی نظام یا جمہوریت کے پارلیمانی نظام دونوں میں سےکسی ایک کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت کے اصولوں کو ٹیکنو کریسی کی مہارت سے چلنے والے نقطہ نظر کے ساتھ جوڑنا، فوائد کا ایک انوکھا امتزاج پیش کرسکتا ہے جو انتظامیہ اور منصوبہ سازی کو چارچاند لگاسکتا ہے۔ یہ مخلوط نظام اپنے فیصلہ سازی کے عمل میں مہارت اور تکنیکی علم کو ترجیح دیتا ہےاوراس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پالیسیاں متعلقہ شعبوں میں خصوصی علم اور تجربہ رکھنے والے افراد کے ذریعے ترتیب دی جائیں اور لاگو ہوں۔اسکے علاوہ ٹیکنالوجی پر مشتمل اعلیٰ تکنیکی صنعتی برآمدات کی جانب منتقلی بھی ضروری ہے۔ اس کیلئے ہمارے پاس وفاقی اور صوبائی وزراء، سیکریٹریز کے ساتھ ساتھ دیگر سینئر افسران کو متعلقہ شعبوں میں اعلیٰ ترین ماہر ہونا ضروری ہے جو پاکستان کو کثیر آمدن مصنوعات کی تیاری اور برآمدکیلئے دیگرممالک میں ایک لیڈر بننےکیلئے تیار کریں۔ اس کیلئے ہم ایک چھوٹے سے ملک سنگاپور کی تقلید کر سکتے ہیں جس کی برآمدات آج 390 ارب ڈالرز سالانہ ہیں، جبکہ پاکستان کی برآمدات افسوس صرف 35 ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ ہمارا ملک سنگاپور سے 50گنا بڑا ملک ہے۔ سنگاپور اپنی ٹیکنو کریٹ حکومت کیلئے جانا جاتا ہے۔ چین، اٹلی، بیلجیم، فن لینڈ اور بہت سے دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بھی حکومتیں زیادہ تر ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہیں۔
چین کی بہترین مثال ہمارے سامنے ہے جس نےمختصر عرصے میں خود کو غربت سے نکال کر عالمی رہنما بنا دیا ۔ چین کی قیادت بڑی حد تک انجینئرز اور سائنسدانوں پر مشتمل ہے۔علمی معیشت کی جانب چین کا سفر ایسی حکمت عملی اور منصوبہ بندیوںپر مشتمل ہے جن کا مقصد جدت اور تکنیکی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ یہ تبدیلی حکومتی تعاون، تعلیم اور تحقیق میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاریاور کاروباری ماحول کو فروغ دینے کے امتزاج سےممکن ہوئی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے قومی سطح پر درمیانی اور طویل مدتی پروگرام (2020 -2006 ) کے نفاذ نے سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے کلیدی شعبوں کی نشاندہی کرکے چین کی جدت طرازی پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی کی بنیاد رکھی۔ چین نے تحقیق اور ترقی (R&D) میں اپنی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کیا، جو گزشتہ چند دہائیوں میں بڑھ کر عالمی سطح پر تحقیق اور ترقی (R&D) میں سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں سے ایک بن گیا۔ یہ مالی عزم سائنسی تحقیق اور تکنیکی جدت طرازی کیلئے ایک مضبوط عملی ڈھانچے کی تعمیر میں اہم قدم ثابت ہوا ہے۔
بیجنگ میں قائم Zhongguancun Science Park جو ملک بھر میں اعلیٰ تکنیکی صنعتی ترقی کے علاقوں کا قیام، جدت طرازی کے مراکز کے طور پر کام کرتا ہے، ملکی اور بین الاقوامی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور نئی ٹیکنالوجیوں کی تحقیق اورتجارتی آمدن کیلئے سازگار ماحول کو فروغ دیتا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ، چین نے اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ہیں تاکہ ایک اعلیٰ ہنر مند افرادی قوت پیدا کی جا سکے جو جدت طرازی کے قابل ہو۔ STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی) کی تعلیم پر زور دیتے ہوئے، چین نے انجینئرز، سائنسدانوں، اور تکنیکی پیشہ ور افراد کی ایک نسل کو پروان چڑھایا ہے۔
چینی حکومت نے’’وسیع کاروبار اور جدت طرازی مہم‘‘(Mass Entrepreneurship and Innovation ) جیسے اقدامات کے ذریعے سٹارٹ اپسStart-ups) ) اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (Small Medium Enterprises) کو خاطر خواہ مدد فراہم کی ہے، ایک کاروباری ثقافت کو فروغ دیا ہے اور ابھرتے ہوئے کاروباری افراد کو مالی مراعات، انکیوبیٹر پروگرامز (Incubator Programmes) اور رہنمائی کی پیشکش کی ہے۔ چین نے مصنوعی ذہانت (AI) اور بڑا ڈیٹا (Big data) میں جارحانہ انداز میں پیش رفت کی ہے، 2017 میں’’ نئی نسل مصنوعی ذہانت ترقی پلان‘‘ (New Generation AI ) کا آغاز کیا گیا ہے، جس کا مقصد چین کو 2030 تک AI میں عالمی رہنما بنانا ہے۔ یہ منصوبہ بنیادی تحقیق سے لے کر مختلف پہلوؤں پر محیط ہے۔ مختلف شعبوں میں AI کی ترقی کے لیےچین نے ’’میڈ اِن چائنا 025 2‘‘(Made in China 2025)جیسے اقدامات کے ذریعے جدید مصنوعات سازی ٹیکنالوجیوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کی ہے، جس کا مقصد پیداواری صلاحیت اور جدت کو بڑھانے کیلئے ڈیجیٹل (Digital) ٹیکنالوجیوں اور اسمارٹ مینو فیکچرنگ (Smart Manufacturing) کے عمل کے انضمام کو فروغ دے کر مینو فیکچرنگ سیکٹر کو بہتر کرنا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (Belt and Road Initiative ) نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بین الاقوامی تعاون کو آسان بنایا ہے۔ BRI روٹ کیساتھ ساتھ ممالک کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دے کر، چین نے اپنے جدت طرازی نیٹ ورک کو وسعت دی ہے، عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کی منتقلی اور باہمی تعاون کے ساتھ تحقیقی منصوبوں کو فعال کیا ہے۔ شینزین (Shenzhen) جیسے خصوصی اقتصادی علاقے (Special Economic Zones) جدت طرازی کو فروغ دینے، غیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کو راغب کرنے کیلئے سازگار پالیسیاں اور بنیادی ڈھانچہ پیش کرنے، جدت طرازی اور اقتصادی ترقی کیلئے متحرک ماحولیاتی نظام بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
چین میں قومی تجربہ گاہوں اور تحقیقی مراکز کی تخلیق نے جدید تحقیق کیلئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے، جو اہم ٹیکنالوجیوں اور بنیادی سائنسوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، مختلف شعبوں میں جدت طرازی کو آگے بڑھاتے ہیں اور چین کی تکنیکی صلاحیتوں میں تعاون کرتے ہیں۔ چین نے روایتی صنعتوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیوں کے انضمام کو فروغ دیا ہے، کلاؤڈ کمپیوٹنگ (Cloud Computing)، بلاک چین (Block Chain)، اور ڈیٹا اینالیٹکس (Data Analytics)جیسی ٹیکنالوجیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زراعت، مالیات اور صحت کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں جدت اور کارکردگی کو نمایاں طور پر فروغ دیاہے۔ اب بہت ہو چکا ،ہم نےبد عنوانی اور نااہلی کے ذریعے اس ملک کو تقریباً تباہ کر دیا ہے۔ ہمیں ایک ٹیکنالوجی پر مبنی جمہوریت کے قیام کیلئے اپنے آئین کو تبدیل کرنیکی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ملک کے پروگرام تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر مبنی ہوں تاکہ ہم اپنے آپ کو موجودہ دلدل سے نکال کر علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی ایک مضبوط علمی معیشت کی طرف منتقل کر سکیں۔