شام میں بعث پارٹی اور علوی خاندان کے اقتدار کا سورج آخر کار غروب ہو گیا۔ مگر باغیوں کی کامیابی پر پاکستان میں یوں خوشیاں منائی جارہی ہیں جیسے دمشق اور اسلا م آباد کسی میلے میں بچھڑے ہوئے حقیقی بھائی ہوں۔ ہمارے ہاں ایک عرصہ سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ 2010ء میں عرب ممالک میں تبدیلی کی لہر اُٹھی جسے ’’عرب بہار‘‘ کا نام دیا گیا۔ الجزائر اور لیبیا کے درمیان بحیرہ روم کنارے خوبصورت ملک تیونس میں آگ لگی تو ہمارے ہاں طفلان انقلاب نے زندہ بادکے نعرے لگائے۔ زین العابدین بن علی کا 30سالہ دور ختم ہوا تو وہاں سے زیادہ یہاں جشن طرب برپا ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مصر، شام، لیبیا، یمن اور بحرین اس سونامی کی زد میں آ گئے۔ حسنی مبارک، معمر القذافی اور علی عبداللہ صالح کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ مگر بعد میں یہ حقیقت واضح ہوئی کہ جسے عرب بہار کا نام دیا گیا تھا ۔ کابل میں طالبان کے داخل ہونے پر پاکستان میں ایسی ہی وارفتگی کا عالم دیکھنے کو ملا۔ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش سے فرار ہونے پر شادیانے بجائے گئے اور اب بشار الاسد کے دمشق سے بھاگ جانے پر نصرمن اللّٰہ و فتح قریب کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ آمریت اور ریاستی جبر کا خاتمہ یقیناً خوش آئند ہے مگر آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جانے پر ایسی دیوانگی چہ معنی دارد؟
کیا کسی نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ آمریت تو دیگر کئی ممالک میں بھی ظلم و استبداد کے ساتھ موجود ہے تو پھر شام کے شہریوں کو ہی بارود کے ڈھیر میں لپٹی جمہوریت کا تحفہ عنایت کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ باغیوں کے ساتھ لڑائی کا آغاز تو 2011ء میں ہوا مگر جو کام گزشتہ 13برس میں نہ ہو سکا، وہ 13دن میں کیسے ہو گیا شام عالمی شطرنج کی بساط کا مرکز کیسے بنا؟ یہ گریٹ گیم شروع ہوتی ہے 2009سے۔ قطر قدرتی وسائل سے مالامال ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ یہاں قدرتی گیس کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں۔ حال ہی میں یہاں نارتھ فیلڈ میں 240کیوبک فٹ گیس کا ایک نیا ذخیرہ دریافت ہوا ہے جس کے بعد قطر میں قدرتی گیس کے ذخائر کا تخمینہ 1760ٹریلین کیوبک فٹ سے بڑھ کر 2000کیوبک فٹ ہو گیا ہے۔ یہاں العدید ایئر بیس کے نام سے امریکہ کا سب سے بڑا ایئر بیس ہے جس کی مدت ختم ہونے پر حال ہی میں مزید دس سال کی توسیع کی گئی ہے۔ یہاں امریکی مفادات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔قدرتی گیس برآمد کرنے والے ممالک میں روس سرفہرست ہے جبکہ پانچ بڑے ممالک میں آسٹریلیا، امریکہ کے بعد قطر بھی شامل ہو گیا ہے۔ یورپی یونین میں شامل ممالک طویل عرصہ تک ایندھن کی ضروریات کیلئے روس پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ روس کی اجارہ داری ختم کی جائے اس لئے قطر سے گیس خریدنے کی تجویز سامنے لائی گئی۔ قطر ایل این جی تو برآمد کر رہا تھا مگر اس پر اخراجات زیادہ آ رہے تھے چنانچہ گیس پائپ لائن کے ذریعے یورپی ممالک کو ایندھن فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ 10بلین ڈالر کی لاگت سے 1500کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ یہ گیس پائپ لائن سعودی عرب، اردن اور شام سے ہوتی ہوئی ترکی میں داخل ہوتی اور چونکہ ترکی یورپ کا گیٹ وے ہے تو وہاں سے مغربی ممالک کو گیس فراہم کی جاتی۔ اس گیس پائپ لائن سے روس کو نہ صرف معاشی طور پر نقصان ہوتا بلکہ خطے میں روس کا اثر و رسوخ بھی کم ہو جاتا۔ شام کے حکمران بشار الاسد کا شمار روس کے اتحادیوں میں ہوتا تھا چنانچہ بشار الاسد نے 2009ء میں اس منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس گیس پائپ لائن کو کسی صورت شام سے نہیں گزرنے دیا جائے گا۔ چنانچہ امریکی انتظامیہ نے عراق میں تیار کیے گئے جہادی گروہوں کو شام بھیج دیا۔ یہاں حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تو دنیا بھر سے جہادی گروہ شام کا رُخ کرنے لگے۔ ابتدائی طور پر ان باغیوں کو کامیابی ملی اور انہوں نے ادلب سمیت کئی اہم شہروں پر قبضہ کر لیا۔ مگر بعد ازاں جب روس ،ایران اور حزب اللہ سے مدد ملی تو حکومتی افواج نے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔ شام میں جاری لڑائی سے کئی ممالک کے مفادات وابستہ تھے، مثال کے طور پر ترکی یہاں Syrian National Armyنامی باغی گروہ کی مدد کر رہا تھا اور 2016ء میں ترک افواج نے سرحد پار کرکے شام کے علاقوں میں فوجی کارروائی بھی کی۔ ترک حکومت اس اندیشے کا شکار تھی کہ جس طرح عراق میں کردوں نے خود مختار حکومت بنا لی ہے اگر شام میں بھی وہی کہانی دہرائی گئی اور کردوں نے علیحدہ حکومت قائم کرلی تو اگلی باری ترکی کی ہوگی کیونکہ کرد ان تینوں ممالک میں بٹے ہوئے ہیں۔ اسرائیل 1967ء کی 6روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران گولان کی پہاڑیوں پر قابض ہوچکا ہے اور اب اس کی نظر یہاں سب سے بلند چوٹی Mountain Hermonپر تھی۔ چنانچہ ان سب ممالک کے مفادات کے سبب شام میں بدامنی بڑھتی چلی گئی۔ چونکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران اسرائیل نے حزب اللّٰہ کی کمر توڑ دی ہے، حماس اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، ایران کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، روس کو یوکرین کی جنگ نے تھکا دیا ہے اسلئے ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اُٹھانے سے پہلے یہ اُدھورا کام نمٹانے کا فیصلہ ہوا۔ہیت تحریر الشام نامی باغی گروہ کے ذریعے ابو محمد الجولانی نامی پراسرار کردار متعارف کروایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ لوگ پورا ملک فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے۔شام میں تبدیلی کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو ہوا جس نے Quneitra صوبے کی حدود میں واقع بفر زون پر قبضہ کرلیا اور اب سب سے بڑی چوٹی اس کے کنٹرول میں ہے جہاں سے 40 کلومیٹر دور دمشق کو نہ صرف توپخانے سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ پورے علاقے پر نظر بھی رکھی جا سکتی ہے۔ یہ انقلاب نہیں بلکہ سراب ہے اور آئندہ چند برس کے دوران یہ حقیقت واضح ہو جائے گی۔