اسلام آباد (ساجد چوہدری )وفاقی وزیر قانون و انصاف ، پارلیمانی امور سنیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ کو بتایا کہ ایسی کوئی قانون سازی نہیں ہوئی جس کے ذریعے کسی جج یا کسی فوجی افسر کو ایکسٹینشن دی گئی ، آرمی ، ایئر فورس اور نیول ایکٹس میں کچھ ترامیم ہوئی ہیں جن کی وجہ سے ٹنیور کو فکس کیا گیا ، سول بیوروکریسی کے 9ریٹائرڈ افسران کو قانونی، سرکاری اداروں ، کمپنی یا ریگولیٹری باڈی کا سربراہ مقرر کیا گیا ، حاضر سرکاری ملازم کو پی ٹی سی ایل بورڈ یا دیگر کمپنیوں کے بورڈ زکا رکن لگایا جاسکتا ہےتاہم وہ فیس کے مستحق ہوتے ہوئے ایک سال میں دس لاکھ روپے سے زیادہ ملنے والی رقم حکومتی خزانے میں جمع کرائینگے، بدھ کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر قانون نے سنیٹرز انوشہ رحمان، سعدیہ عباسی اور دنیش کمار سمیت دیگر ارکان کے سوالوں کے تحریری اور ضمنی جوابات میں بتایا کہ سول بیوروکریسی کے 9ریٹائرڈ افسران میں سے سات کو ایم پی ون سکیل میں لگایا گیا جبکہ ایک کے پے پیکیج ہائیکورٹ کے جج کے برابر ہیں، ایم پی ون سکیل کے تحت اداروں کے لگائے گئے سربراہوں میں شامل بیوروکریٹس میں پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر کو ڈائریکٹر جنرل نیشنل لینگویج پروموشن ڈیپارٹمنٹ (این ایل پی ڈی )، محمد ایوب جمالی کو ڈائریکٹر جنرل پی این سی اے نیشنل ہیرٹیج اینڈ کلچر ڈویژن ، ایمبیسڈر سہیل محمود کو ڈائریکٹر جنرل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز ، ایمبیسڈر جوہر سلیم کو صدر انسٹیٹیو آف ریجنل سٹڈیز وزارت خارجہ ، شعیب احمد صدیقی کو چیف انفارمیشن کمشنر پاکستان انفارمیشن کمیشن وزارت اطلاعات و نشریات، مشتاق سکھیرا کو چیئرمین نیشنل اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کاؤنٹر فائنانسنگ آف ٹیررازم اتھارٹی اور وسیم مختار کو چیئرمین نیپرا کیبنٹ ڈویژن لگایا گیا ہے جبکہ ربیہ جاویری آغا کو چیئرپرسن این سی ایچ آر وزارت ہیومن رائٹس میں لگایا گیا۔