کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق شیخ کے سوال ملٹری کورٹ کے فیصلے پر تجزیہ کاروں کی رائے کیا؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کار،بیرسٹر منصور اعظم نے کہا کہ ملٹری ٹریبونلز امریکا کے اندر کام کررہے ہیں اوران کو سپریم کورٹ کا تحفظ حاصل ہے۔جو وہ خود کررہے ہیں وہ دوسروں کو کیسے روک سکتے ہیں ،تجزیہ کارریما عمر نےکہا کہ ملٹری کورٹس میں آفیسرز جنہوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ آزاد نہیں ہیں وہ ایگزیکٹوز کا حصہ ہیں،تجزیہ کارمظہر عباس نے کہا کہ یہ صرف سویلین نہیں ہیں یہ سیاسی کارکنان ہیں۔نواز شریف کا ہائی جیکنگ ٹرائل کسی ملٹری کورٹ میں نہیں ہوا تھا سیشن کورٹ میں ہوا تھا۔تجزیہ کار،بیرسٹر منصور اعظم نے کہا کہ جہاں یورپی یونین اور برطانیہ فوجی عدالتوں کی با ت کرتے ہیں وہاں امریکافوجی ٹریبونلز کی بات کرتے ہیں۔ملٹری ٹریبونلز امریکا کے اندر کام کررہے ہیں اوران کو سپریم کورٹ کا تحفظ حاصل ہے۔جو وہ خود کررہے ہیں وہ دوسروں کو کیسے روک سکتے ہیں۔اس میں سب سے اہم آئی سی سی پی آر کا آرٹیکل14 ہے ۔وہ کچھ حقوق کی بات کرتا ہے جو مجموعی طو رپر سات ہیں۔فوجی ٹرائل میں ان سارے عوامل کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ کوئی آرڈر جاری نہیں ہوا انہیں معلومات نہیں۔درست دائرہ کار تو فوجی عدالتوں کے پاس ہے۔ اس دائرہ کار پر سپریم کورٹ نظر ثانی کررہی ہے ہمیں اس کے فیصلے کا انتظا رکرنا چاہئے۔ تجزیہ کارریما عمر نےکہا کہ ملٹری کورٹس میں آفیسرز جنہوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ آزاد نہیں ہیں وہ ایگزیکٹوز کا حصہ ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ عدلیہ کو ایگزیکٹوز سے علیحدہ کردیا جائے گایہ اس کی بھی نفی ہے۔