• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر نعمان نعیم

ارشادِ ربانی ہے:جو لوگ اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ نہ کریں، ایسے ہی لوگ دراصل کافر ہیں۔ (سورۃ المائدہ)یعنی کسی مسلمان کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ تعلیمات کی خلاف ورزی کرے۔اسی طرح نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے :”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس شریعت کے تابع نہ ہوجائے ،جسے میں لے کر آیا ہوں۔“ (مفہوم حدیث)ہر مسلمان کو اپنے تمام امور ومعاملات کو اسی شریعت کے تابع کردینا لازمی ہے، اگر وہ مسلمان رہنا اور مسلمان ہی مرنا چاہتا ہو۔

اسے جاہلانہ اور غیراسلامی رسوم و رواج اورطورطریقوں کو چھوڑ دینا ہوگا جو شریعت اسلامی کے خلاف ہوں اور اسلامی تعلیمات سے ٹکراتے ہوں۔ یہی اسلام میں مطلوب ہے اوراس کے خلاف عمل حرام ہے۔ موجودہ دور میں شادیوں میں جن جاہلانہ اور غیر اسلامی رسوم کا رواج ہوچکا ہے، ان میں ایک ’’جہیز‘‘ہے۔ جو مہر کی ضد میں شریعت اسلامی کے خلاف پروان چڑھ چکی ہے۔

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے تمام معاملات کو مکمل واضح ترین انداز میں بیان کر دیا ہے، نیز زندگی اور معاشرے کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جس کے سلسلے میں واضح اسلامی تعلیمات نہ ہوں، مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج ان تعلیمات سے دور ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سے پہلو اور گوشے ایسے ہیں جن میں ہم جاہلانہ رسوم و رواج پر عمل کرتے ہیں، نتیجتاً ہم بہت سی خرابیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات تو یہ خرابیاں روگ اور ناسور کی شکل اختیار کر جاتی ہیں جس کی ایک کڑی جہیز کی رسم ہے۔

ہمارا معاشرہ رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دیتا ہے، جس کی وجہ سے جہیز جیسی وبا اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اسلام سادگی کا دین ہے اور اسلام کی نظر میں عورت کا بہترین جہیز اس کی بہترین تعلیم و تربیت ہے۔ معاشرے میں جہیز کی روایت کی وجہ سے بیٹیاں بیاہنا آج ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ جہیز کی رسم نے ان غریبوں کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے جو خود دو وقت کی روٹی کے متلاشی ہیں۔

اس حوالے سے شریعت میں لڑکی پرکوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ۔ مرد کو اپنی حسب حیثیت ضروری امور میں مال خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بناء پر کہ وہ اپنے اموال خرچ کرتے ہیں۔(سورۃ النساء)

مال خرچ کرنے میں کپڑے، زیور، مہر، ولیمہ اورنفقہ شامل ہے۔ ان میں مہر فرض ہے۔ اس کی ادائیگی اگر نقد (معجل) ادا کردی جائے تو یہ افضل ہے۔ ورنہ اگرادھار (موٴجّل) ہو تو وعدہ کرنا چاہیے کہ وہ کب اور کس طرح ادا کرے گا، لیکن اگر نیت یہ ہو کہ لکھ لیا جائے، کون دیتا ہے۔ توایسے شخص کے متعلق نبی اکرمﷺ نے فرمایاہے:جس نے مہر کے عوض کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ اس مہر کوادا نہ کرے گا وہ دراصل زانی ہے۔ (مفہوم حدیث)

غور فرمائیں، مہر ادا نہ کرنے کی نیت کتنا سنگین گناہ ہے۔ اس وقت معاشرے میں مہر کی حیثیت جہیز نے ثانوی کردی یا گھٹادی ہے۔ مہر برائے نام اور سادگی سے رکھ لیا جاتا ہے۔ جب کہ جہیز جو گویا ایک رسم ہے ،نقد وصول ہوتا ہے۔ اس مالِ کی نمائش ہوتی ہے جسے لوگ دیکھنے کے لیے آتے ہیں، اور اس کا چرچا ہوتا ہے۔ مال جس قدر ملتا ہے حرص اور لالچ میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقوں سے مت کھاؤ۔ (سورۃ النساء)

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے زیادہ آسانی ہو۔ دین اسلام نے نکاح کو بہت ہی آسان بنایا ہے ،صحابۂ کرام ؓ اور اولیاء اللہ کی زندگی کے بے شمار واقعات موجود ہیں، وہ کس طرح سادگی سے نکاح کیا کرتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر کوئی ایسا شخص تمہارے پاس رشتے کا پیغام بھیجے جس کی دین داری اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس کا نکاح کرادو، اگر ایسے نہیں کروگے تو زمین میں بڑا فتنہ اور وسیع فساد ہوجائے گا۔(ترمذی)حدیثِ مبارکہ میں ہے: سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو۔(مشکوٰۃ، کتاب النکاح)

نیز ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحۃً ممانعت وارد ہے ۔اور ’’جہیز‘‘ ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں، اگر والدین اپنی رضا و خوشی سے اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر کچھ دینا چاہیں تو یہ شرعی طور پر ممنوع بھی نہیں، بلکہ یہ رحمت اور محبت کی علامت ہے، ایسی صورت میں بچی کے لیے جہیز لینا جائز ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی۔

لیکن شریعت میں کہیں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، نہ ہی کسی روایت میں اس کا تذکرہ یا ترغیب ملتی ہے۔ جہاں تک حضرت فاطمہ ؓ کے سلسلےمیں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحب زادی فاطمۃ الزہراء ؓکو جہیز کے طور پر یہ چیزیں دی تھیں: ایک پلو دار چادر، ایک مشکیزہ، ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔(سنن النسائی)

اس بات میں دو رائے نہیں ہے کہ جہیز شرعاً ایک غیر ضروری چیز ہے، شریعت نے کہیں اس کو لازم یا ضروری قرار نہیں دیا اوراگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے اپنی پاکیزہ بیٹیوں کی رخصتی کے موقع پر جو کچھ دیا تھا،اس کی حیثیت جہیز کی تھی اوراسے جہیز کے لیے بنیاد قرار دیاجائے تو بھی اس کی نوعیت زیادہ سے زیادہ ایک مندوب عمل کی ہوگی، اسے فرض یا واجب تو کجا، سنتِ موٴکدہ قرار دینا بھی درست نہیں۔

اب ایسی غیر ضروری چیز کی پابندی کرنا اور ہر حال میں اس کا انتظام واہتمام کرنا شرعاً کسی طرح پسندیدہ نہیں ہے، بلکہ اگر اس کو لازم قرار دیاجائے تو بدعت ہونے میں بھی کلام نہیں۔

اگر کوئی شخص اپنی ذات کی حد تک اسے لازم نہ بھی سمجھے، لیکن اس کے باوجوداس کی پابندی کرتا ہے توبھی اس سے اس رسم باطل کی تائید وتقویت ہوتی ہے۔

نکاح سے متعلق شرعی تعلیمات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں یسر وسہولت اورسادگی پسندیدہ ہے، اس موقع پر غیر ضروری مالی اخراجات یا عملی انتظامات شریعت کے مزاج ومذاق کے خلاف ہے، کیونکہ یہی سرگرمیاں رفتہ رفتہ نکاح کا حصہ بنتی جاتی ہیں اور اگر کہیں اس کے تکمیل کے اسباب وسائل میسر نہ ہوں تواس کی وجہ سے نکاح بھی موٴخر یا معطل ہوجاتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے: ”آپﷺ کاارشادگرامی ہے:نکاح کرکے اولاد کی کثرت کرو، یونکہ میں قیامت کے دن آپ کی وجہ سے دوسری امتوں پرفخر کروں گا“۔(مصنف عبدالرزاق، باب وجوب النکاح وفضلہ، ج۶ ص۱۷۳)

ہمارے یہاں ایک لمبے عرصہ سے جہیز کے لین دین کا تعامل جاری ہے؛اس لیے اب وہ نکاح کا ایک ضروری حصہ بن چکا ہے،لڑکی والے بھی اس کا پورا انتظام کرتے ہیں اور لڑکے والوں کی طرف سے بھی اس کے باقاعدہ مطالبے ہوتے ہیں؛ بلکہ متعدد جگہوں پر تواس رواج نے ا س حد تک ترقی کی ہے کہ رشتہ کی بات طے کرتے وقت ہی ساتھ یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ جہیز میں کیا کیا ملے گا؟ 

اس کا ایک نقصان تو یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ لڑکی کے اہلِ خانہ اکثر اوقات شرما شرمی میں اور دلی رضامندی کے بغیر ہی جہیز دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور دوسرا خراب نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اس کے بدلے پھر لڑکے کے اہل خانہ سے بھی مختلف چیزوں کا مطالبہ شروع ہوجاتا ہے؛ حالانکہ یہ دونوں باتیں شرعاً ممنوع، گناہ اور اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے حد درجہ نامناسب ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر کسی مسلمان کو ملامت کرنااور طعنے دینا جائز ہوسکے۔ 

حدیث شریف میں ہے:ترجمہ: کسی مسلمان کامال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لیناجائز نہیں۔(السنن الکبری للبیہقی)اگرسسرال والے رخصتی کے وقت کچھ لے لے توشوہرواپسی کامطالبہ کرسکتا ہے؛ کیونکہ شرعایہ رشوت کے زمرہ میں آتا ہے۔ (البحر الرائق، کتاب النکاح، باب المہر)”فتاویٰ شامی“میں ہے: ترجمہ:اگرسسرال والے رخصتی کے وقت کچھ لے لے تو شوہر واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے؛ کیونکہ شرعاًیہ رشوت کے زمرہ میں آتاہے۔(الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین، کتاب النکاح، باب المہر)

ایک کڑوی حقیقت یہ ہے کہ جہیز کے اس رسم بد نے ہمارے ہاں معاشرے کے تقریباً تمام طبقات میں اپنے لیے جگہ پیدا کی ہے اور تقریباً سبھی لوگ کسی نہ کسی شکل میں اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسی چیز کو بدلنے کی مناسب صورت یہی ہے کہ: اپنی حد تک مضبوطی کے ساتھ اس کے لین دین سے گریز کرلیا جائے۔ تمام معاشرے میں عموماً اور اپنے اپنے حلقہ اثر کی حد تک خصوصاً اس کی مذمت کی جائے، مسلمانوں کے دینی شعور اور مذہبی حس کو بیدار کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے اور اس سلسلہ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہوناچا ہیے۔ 

جو لوگ مجاہدہ سے کام لے کر سادگی کے ساتھ شادی بیاہ کریں ان کی مناسب طریقے سے حوصلہ افزائی کی جائے اور جو لوگ اسی رسم بد پر عمل پیرا ہوں، اعتدال ومیانہ روی کیساتھ ان کے اس عمل کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس طرح کرنے سے امید کی جاتی ہے کہ کچھ ہی عرصہ میں یہ رسم بد ختم یا کم ہوجائے گا۔

یہ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ لڑکی والوں سے اپنی پسند اور خواہش کے مطابق جہیز کا مطالبہ کیا جائے، حالانکہ لڑکی کے ماں باپ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ وہ بچی کو ناز و نعمت میں پال کر اور اسے تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے اللہ کے حکم کی وجہ سے اپنے دل کے ٹکڑے کو دوسروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس احسان مندی کے بجائے ان سے مطالبات کے ذریعے احسان فراموشی کا اظہار کیا جاتا ہے جب کہ اللہ کا حکم احسان کے بدلے احسان کرنے کا ہے۔

پھر یہ بات لڑکے کی مردانگی کے بھی خلاف ہے کہ وہ صنف لطیف کے دئیے ہوئے لباس پہن کر عقد کرے، اس کی لائی ہوئی چیزوں پر عیش کرے، ہونے والی شریک حیات سے مانگے یا لے۔ تو یہ اس کے فقیر ہونے کی علامت ہے۔لڑکیوں پر دوسرا ظلم ان کے والدین کرتے ہیں۔ 

وہ رسم جہیز کو تو خوش دلی سے ادا کرتے ہیں، لیکن وراثت میں لڑکی کا حصہ ادا نہیں کرتے ، جو حقوق العباد میں سے ہے، جسے دنیا میں نہیں ادا کیا گیا تو آخرت میں نیکیوں کی شکل میں ادا کرنا ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں جہیز کی موجودہ غیر اسلامی اور خودساختہ رسم سے دور رکھے، معاشرے کو بھی اس سے نجات دے، حفاظت فرمائے، تاکہ نکاح وشادی آسان ہوسکے۔