تفہیم المسائل
سوال: نارتھ کراچی کی ایک مسجد میں باقاعدہ نمازیں شروع کی گئیں اور محمد حنیف نامی ایک شخص کو بطور مؤذن مقررکیا (تحریری تقررنامہ مع شرائط وضوابط موجود ہے)۔رہائش کے لیے محمد یحیٰ قادری کے توسط سے فنائے مسجد میں کمرہ بنواکردیا ،جب محمد حنیف صاحب مسجد کے کاموں سے لاپروا ہوگئے تو ان کے بیٹے محمد بلال کو مؤذن مقررکردیا ،لیکن کچھ عرصہ بعد محمد بلال بھی ذمے داریوں سے غافل ہوگئے ، مؤذن کی رہائش کا بجلی میٹر علیحدہ لگا ہوا ہے، جس کا بل دولاکھ روپے تک چڑھادیا ہے،اب تک ادا نہیں ہوا۔ انتظامیہ نے نوٹس بھی جاری کیا ،محمد حنیف اور محمد بلال مسلسل لاپروائی برتتے رہے ۔
جنوری2024ء میں انہیں مسجد سے فارغ کردیاگیا ہے ،لیکن یہ مسجد کی رہائش خالی نہیں کررہے اور کہتے ہیں کہ یہ گھر ہمارا ہے ،ہم سے کوئی خالی نہیں کراسکتا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ مجھے سرجانی ٹاؤن میں 200گز کا رہائشی پلاٹ خرید کردیاجائے ،میں مسجد کا کمرہ خالی کردوں گا۔ آپ سے گزارش ہے کہ ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں ، مسجد کا مکان (مؤذن کی رہائش ) اور بجلی کے بل کے بارے میں شرعی حکم کیاہے ؟،( انتظامیہ مسجد ، کراچی)
جواب: مسجد کی طرح مسجد کے عملے کے رہائشی مکانات بھی وقف ہوتے ہیں اور حاضر سروس عملے کو رہائش کا حق حاصل ہوتا ہے، برطرفی / معزولی یاامام ، مؤذن وخادم کی وفات کی صورت میں اُس کے ورثاء کو مکان خالی کرنا پڑتا ہے ، اُس پر ملکیت کا دعویٰ جائز نہیں ہے۔
مسجد کے مُتولیٰ ، نگران یا واقف کو بھی اس میں ملکیت کا دعویٰ کرنے کا اختیار نہیں ،وقف کا حکم یہ ہے کہ شے موقوف واقف کی مِلک سے خارج ہوجاتی ہے ، مگر موقوف علیہ (یعنی جس پر وقف کیا ہے ،اس کی) مِلک میں داخل نہیں ہوتی، بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی مِلک قرار پاتی ہے ،اس کے بعد واقف کو بھی اُس میں ذاتی تصرُّف یا واپس لینے کا اختیار حاصل نہیں رہتا، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
ترجمہ:’’ (وہ کسی کی مِلک نہیں بنے گا) یعنی وقف کرنے والے کی ملکیت میں بھی نہیں رہے گا اور کسی دوسرے کو (بھی)خرید وفروخت وغیرہ سے اِس کا مالک نہیں بنایا جاسکے گا ،کیونکہ جو چیز کسی کی اپنی مِلک سے نکل جائے ، کسی دوسرے کو اس کا مالک بنانا ناممکن ہے، اسے نہ عاریتاً دیا جا سکتا ہے اور نہ رہن رکھا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ دونوں چیزیں مِلک کا تقاضا کرتی ہیں، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار، جلد6، ص:421، بیروت)‘‘۔
وقف کے متعلق حکم یہ ہے کہ اُسے نہ تو بیچا جاسکتا ہے نہ ہبہ کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی اُس میں وراثت جاری ہوتی ہے ،علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ پس (وقف)لازم ہوجاتا ہے ،نہ تو اُسے بیچا جاسکتا ہے ،نہ ہبہ کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی اُس میں وارثت جاری ہوتی ہے ، ہدایہ میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد2ص:350)‘‘۔
علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ پس جب وقف تامّ(مکمل) ہوجائے تو نہ تو کسی کو اس کا مالک بنایا جاسکتا ہے ،نہ اسے عاریتاً دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے رہن رکھا جاسکتا ہے‘‘۔اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
ترجمہ:’’ (وہ کسی کی مِلک نہیں بنے گا )یعنی وقف کرنے والے کی ملکیت میں بھی نہیں رہے گا اور کسی دوسرے کو (بھی)خرید وفروخت وغیرہ سے اِس کا مالک نہیں بنایا جاسکے گا ،کیونکہ جو چیز کسی کی اپنی مِلک سے نکل جائے ، کسی دوسرے کو اس کا مالک بنانا ناممکن ہے، اسے عاریتاً بھی نہیں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی رہن رکھا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ دونوں چیزیں مِلک کا تقاضا کرتی ہیں، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار، جلد6، ص:421، بیروت) ‘‘ ۔
مؤذّن صاحب کی جانب سے مسجد کی رہائش خالی کرنے کے عوض 200گز پلاٹ کا مطالبہ جائز نہیں ہے ، اُن کے ذمے بجلی بل کی مَد میں جو دولاکھ روپے واجب الادا ہیں ، وہ اُن سے وصول کیے جائیں ، البتہ اگر مؤذّن کی حیثیت سے تقرر کے وقت اُن سے عہد کیا گیا تھا کہ بجلی کا بل مسجد انتظامیہ اداکرے گی ،تو پھر انتظامیہ پر اپنے معاہدے کی پابندی لازم ہے۔
اگرمؤذّن مکان خالی کرنے پر تیار نہیں تو اہل محلہ اور انتظامیہ کے ذمہ داران انھیں زبردستی نکال باہر کریں ، مسجد کے فنڈ سے انھیں کسی طرح کا کوئی ریلیف فنڈ جاری نہ کیاجائے ، ورنہ اپنی جیب سے اس کا تاوان دینا پڑے گا ، صدر الشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی ؒ لکھتے ہیں: ’’ مسجدیں عبادت کے لیے ہیں، اپنے بسنے کے لیے نہیں بنائی جاتیں ،نہ اس کام میں لائی جاسکتی ہیں ‘‘۔مزید لکھتے ہیں: ’’مسجد کی کسی شے میں اپنا ذاتی تصرُّف نہیں کرسکتا ،(فتاویٰ امجدیہ ، جلد:سوم، ص:128)‘‘۔
مفتی وقارالدین قادری ؒ لکھتے ہیں: ’’شخصی ملکیت میں کوئی مسجد اور وقف کی جگہ نہیں آسکتی ہے ‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ’’ وقف پر کسی انسان کی ملکیت نہیں ہوتی ہے ، لہٰذا جو شخص اس کے کسی حصہ پر قابض ہے ،اُسے خالی کرنا لازم ہے اور مکان کاوہ حصہ جو اس کے قبضے میں ہے ، مُتولی مسجد کے سپرد کردے ، ( وقار الفتاویٰ ،جلد:دوئم، ص:310-313)‘‘۔