• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میں پانچ سال سے لوگوں کے لیے مارکیٹ سے موبائل لاکر دیتا ہوں، (میرا کام اس طرح ہے کہ مجھے دکان دار کہتے ہیں کہ : ہمارے لیے موبائل خرید کر لاؤ، تو میں موبائل مارکیٹ جاتا ہوں اور دکان سے موبائل خریدتا ہوں، اور جس کے لیے خریدتا ہوں وہ براہ راست رقم موبائل مارکیٹ کے دکان دار کے اکاؤنٹ میں بھیج دیتا ہے، رقم میرے حوالے نہیں کرتا، میں صرف موبائل مارکیٹ کے دکان دار سے ڈیل کرتا ہوں اور پھر موبائل خرید کر جس نے مانگا تھا اس کے حوالے کرتا ہوں اور اپنا مخصوص کمیشن لیتا ہوں)، اور بتاکر 100یا 200 روپے کمیشن رکھ لیتا ہوں۔ 

کراچی کے حالات تو سب کو معلوم ہیں، لیکن میرے ساتھ الحمد للہ کبھی کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا، میں اکثر دکان داروں کے لیے بڑی اماؤنٹ کے موبائل لاتا ہوں، اس بار بھی ایک دکان دار کے لیے 10 لاکھ کے موبائل لارہا تھا کہ راستے میں ڈاکوؤں نے مجھ سے گن پوائنٹ پر چھین لیے، اس کے بعد دکان دار نے مجھ سے موبائل مانگنا شروع کردیے تو میں نے F.I.R بھی کٹوائی، اور اپنی جیب سے پیسے بھی خرچ کیے اور بہت ساری کوششوں میں لگ کر میں نے تقریباً تین موبائل پولیس کے ذریعے نکال کردے دیے ہیں مگر دکان دار مجھ سے ڈیمانڈ کر رہے ہیں کہ موبائل لاکر دو، اب ان موبائل میں جب سم لگتی ہے تب ہی ہم اسے پکڑ لیتے ہیں اور بر آمد کر لیتے ہیں۔ 

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا میں اس میں کسی بھی قسم کا ذمہ دار ہوں؟ حالاں کہ میری کسی بھی غلطی کی وجہ سے نقصان نہیں ہوا ، اور جو پیسے میں جیب سے اس کیس میں لگا چکا ہوں ،اس کا کیا حکم ہوگا؟

جواب: صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ ً سائل سے ڈاکوؤں نے راستے میں زبردستی موبائل چھین لیے ہیں تو ایسی صورت میں سائل پر کسی قسم کا ضمان نہیں آئے گا، اور دکان داروں کا سائل سے ضمان کا مطالبہ کرنا یا الزام لگانا جائز نہیں ہے، اور جو رقم سائل نے اپنے طور پر اس مقدمہ (F.I.R وغیرہ کٹوانے میں)میں خرچ کی ہے اس کا سائل کسی سے مطالبہ نہیں کرسکتا، وہ اس میں متبرع شمار ہوگا۔ (فتاویٰ شامی، کتاب الاجارۃ، باب ضمان الأجير، 6/ 65، ط: سعيد - فتاویٰ عالمگیری، کتاب الاجارۃ، الباب الثامن والعشرون فی بيان حکم الأجير الخاص والمشترک، الفصل الأول الحد الفاصل بين الأجير المشترک والخاص، 4/ 500، ط: دار الفکر)