• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ معاملہ کرنا کہ ایک خاص مقدار سے زیادہ جتنے میں بکے گا، وہ بروکر کا ہوگا

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میں نے 80 ہزار روپے کا ایک بیل خریدا، ایک ماہ پرورش کے بعد میرے ایک نوکر آکر مجھے کہا کہ میں اس بیل کے آپ کو 86 ہزار روپے دوں گا، لیکن میں آپ کو ایک کسٹمر لا کر دوں گا، آپ اسے بیچو، 86 ہزار سے جتنے زیادہ میں بکے گا، وہ میرا ہوگا، تو میں نے اس دوسرے کسٹمر کو وہ بیل 90 ہزار روپے کا بیچا اور 4 ہزار روپے میں نے نوکر کو دیے، تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ بیع صحیح ہوئی یا نہیں؟

جواب: صورتِ مسئولہ میں آپ کے اور آپ کے نوکر کے درمیان جو معاملہ ہوا، چوں کہ اس میں نوکر کی کسٹمر لانے کی اجرت متعین نہیں تھی، اس لیے یہ معاملہ فاسد ہے، کیوں کہ 86 ہزار سے زیادہ کتنے پیسے آئیں گے؟ یہ مجہول ہے اور جہاں اجرت مجہول ہو، وہ معاملہ فاسد ہوتا ہے۔

باقی آپ کے اور اس کسٹمر کے درمیان جو بیع ہوئی ہے، وہ بیع تو صحیح ہوگئی، البتہ نوکر اپنی محنت کے بقدر اجرتِ مثل (جتنی اجرت ایک کسٹمر لانے کے لیے عموماً دی جاتی ہے) کا مستحق ہوگا۔

اس طرح کے معاملے کی درست صورت یہ ہے کہ نوکر کے لیے اجرت پہلے سے طے کر لی جائے کہ کسٹمر لانے کے آپ کو مثلاً 4 ہزار یا 5 ہزار دوں گا، پھر جتنے میں بھی چیز فروخت ہو، اسے اتنی ہی رقم دی جائے، جو طے ہوئی ہے۔دوسری جائز صورت یہ ہے کہ مثلاً نوکر 86 ہزار میں وہ بیل خرید لے اور آگے جتنے میں چاہے بیچ دے۔