• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر 24سال سےحکمران بشار الاسد ہنستے ہوئے ماسکو کی گود میں جا بیٹھے۔ انہیں نہ کوئی حسرت نہ ملال، بقول شخصے قدیم زمانوں اور آج تک کے اثاثے اسی طرح سرحدپار کئے گئےجیسے ہمارے ملک کے خود کو سربراہ کہنے والے اور عوام میں آمر کہلائے جانے والے، اپنے جزیرے ، محل اور نادیدہ اکائونٹس والے جب حکومت میں آتے ہیں تو ساری دنیا سے فنڈز مانگتے اور امداد ملنے پر اِتراتے ہیں۔

پاکستان بھی شام کی طرح چاروں طرف دیکھ کر، ایران سے فی الحال کوئی جھگڑا کرنےکو تیار نہیں۔ البتہ دونوں ممالک یعنی انڈیا اور پاکستان میں سیاحتی تضاد کو خاص کر پاکستان میں گزشتہ دس سالوں سے جو عنایتیں سکھوں پر کی جا رہی ہیں۔ اس پر ذرا نظر ڈالیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں انڈین حکومت راضی بہ رضا نہیں۔ بلکہ جب اور جہاں چاہتی ہے، آنکھیں بند کرلیتی ہے۔ کرتار پور سے لے کر حسن ابدال اور ننکانہ صاحب تو سکھوں کیلئے صرف عبادت کیلئے ہی نہیں۔ جب چاہیں اور جیسا چاہیں وہ سرحدوں کی کاغذی حرمت رکھتے ہوئے آتے ہیں اور پنجاب (پاکستان) میں تو دونوں پنجاب کے علاقوں کی ادبی اور کلاسیکی ادبی اہمیت کیلئے ، کبھی فیصل آباد ، لاہور اور اسی طرح چندی گڑھ ، کرنال تک وارث شاہ، سلطان باہویا بلھے شاہ پہ کانفرنسوں کے علاوہ، ان سارے کلاسیکی پنجابی شعر اکے کلام پہ خوبصورت کتابیںگر مکھی میں شائع کر کے، یہ سلسلہ اب تو کینیڈا، امریکہ تک روزمرہ میں شامل ہے۔ اب تو صوبے اور مرکز دونوں میںساری اقلیتوں کو پارلیمانی پوزیشن دی جا رہی ہے۔

اب گزشتہ تین چار سال سےحکومتی سطح پر بھی دیوالی، دسہرہ اورہولی کی سرپرستی صرف ناچ گانے اور دیے جلانے تک محدود نہیں،ان کی صوبائی اور قومی سطح پر رکنیت بھی قائم کی جاتی ہے۔ انڈیا میں اجمیر شریف اور خسرو، نظام الدین اولیاکے عرس پر پاکستانی وفود کو محدود وقت اور جگہوں پر جانے کی بہ مشکل اجازت ملتی ہے۔ دیوالی اور دیگر تقریبات کے تتبع میں اب پاکستان میں ہر ضلع، دیہات میں، الٹا سیدھا ڈانس یا لڈی ڈالنے کے علاوہ عورتوں،مردوں اور نوجوانوں کو اور کوئی تہذیب نہیں سکھائی جاتی۔ کراچی جشن، ٹوپی اجرک تک محدود نہ کرو ۔ شیخ ایاز اور شاہ لطیف کو بھی یاد رکھو۔

مذہبوں کو بندشوں سے آزاد کرنے کی تحریک، دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں شروع ہوئی۔ وہ نفرتیں جو ہر ملک کو کھا چکی تھیں۔ ان کو آرٹس، میوزیم، گیلریوں، تاریخی عجائب گھروں کے توسط اور نصابی نوجوانوں کے دوروں ، ملاقاتوں کے علاوہ، مغربی رقص اور اوپیرا کو اس طرح زندہ کیا گیا کہ آج آپ کسی تھیٹر یا اوپیرا میں ٹکٹ آن لائن خریدنا چاہیں تو دو سال بعد کی ٹکٹ ملے گی بہت سے ڈراموں اور ادب میں یہ مثالیں بھی ہیں کہ ڈرامے، یا اوپیرا کی ٹکٹ آپ کے پاس ہے اوراسی دن ، شوہر یا کسی عزیز کا انتقال ہوا ہے۔ اہمیت جنازے کو نہیںاس ٹکٹ کو ملے گی۔ جو آج ہی استعمال کیا جانا ہے۔ اسی تہذیبی رچائو کا اثرکہ چین، جاپان اور دیگر بدھسٹ حکومتوں نے اپنے مذہب اور تاریخ کو دلچسپ بنانے کیلئے ہر فن کو فروغ دیا ہے۔ اہرام مصر کو مقبول بھی غیر ملکیوں نےکیا۔ 5 سال پہلے، ناٹرے ڈیم میوزیم، جل گیا تھا۔ آج کل اس کی دوبارہ تعمیر کو جشن کی صورت دی جا رہی ہے۔ ساری دنیا کے سربراہ فرانسیسی صدر کی دعوت پر آرہے ہیں۔ البتہ ایک نکتے پر غور کریں، ابھی سعودی شہزادے نے یہ قدم نہیں اٹھایا ہے۔ ہر چند وہ اپنے ملک میں عالمی ثقافت کو وسعت دینےکیلئے ہر روز ماہرین کو بلاتے اور اب سارے مشرق وسطیٰ کے ممالک نے اپنے ایئر پورٹس پر بدئوں کو چغے پہنا کر، وہاں کے عطر، ملبوسات، کھجوروں سے لے کر ہر

طرح کی مٹھائیاں اور باقی کام در پردہ۔ ان سارےملکوں کے ایئر پورٹس پر ہر دو منٹ بعد، ایک نیا جہاز اتر رہا ہوتا ہے۔ پاکستان میں جو چار سال ہوئے ہوائی اڈہ بنایا گیا ، وہاں بس ایک جہاز کے ایک وقت میں اترنے کی سہولت ہے۔ ہم خود کو ترقی یافتہ ملکوں میں شمار کروانے کو کبھی باکو جاتے ہیں۔ کبھی مراکش اورکبھی مشہد۔ اور گھر میں لہسن سب سے مہنگا مل رہا ہے۔ چینی جاپانی گڑیوں کی طرح اب پرانی گڑیاں بھی بازار میں ہیں۔ اس وقت ہم نے ساری دنیا کو لپیٹ لیا ہے۔ اب غور کریں برصغیرکی تاریخ پر جو تصدیقی طور پر مہاتما بدھ ، آریائوں اور اشوک کے زمانے سے شروع ہوتی ہے۔ پاکستان کے شمالی اور طالبان علاقوں میں بے شمار بدھسٹ عمارتیں اور علاقے برباد کیے گئے۔ اچھا اب آگے آئیں ،اشوک اور دیگر رہنمائوں کے بعدمغل آ گئے۔دو ڈھائی صدیاں وہ اپنی من مانی کرتےاور تعمیرات بنا کے بستر گول کرگئے۔ اب ڈیڑھ سو سالوں تک انگریز نے حکم ماننے کی نئی تشریح کی۔ سنسر شپ کرنا اور کروانا سکھایا اور جس نسل کے لوگ سامنے آئے۔ان کو بس’ سر‘ کہنا سکھایا، لوگوں کو جاگیریں دیں۔ جو اب تک انڈیا پاکستان میں چل رہی ہیں۔ اب آجائیں 75 برس کے تجزیے پہ۔ اب اگر اجمیر میں کھدائی میں مندر یا بدھسٹ بت نکل آئے یا قطب مینار میں معلوم ہو کہ مختلف زبانوں کا اشتراک موجود ہے تو اس پر انڈیا کےمودی کےچاہنےوالوں کی طرح برہم ہونے کی ضرورت نہیں۔ شکر کرو کہ ہمارا برصغیر نئی نسلوں، تہذیبوں کا مسکن رہا ہے۔ کھدائی میں جو کچھ نکلے اس کو محفوظ کرو۔ دنیا کو بتائو نمائشوں کے ذریعے خطاطی سنسکرت کے مخطوطات بدھسٹ آثار جو ہمارے شمالی علاقوں میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ قدر کرنی تو ہمیں کسی کی بھی نہیں آتی غور تو کر لیں۔

تازہ ترین