پاکستان اپنے قیام کے 77 برسوں میںزیادہ عرصہ شدید معاشی بدحالی سے دوچاررہا ہے۔ جو پست ترین فی کس آمدنی کی بڑی وجہ ہے۔ اس دوران سیاسی رسہ کشی اس نہج کو پہنچ گئی کہ پرویز مشرف دور کے بعد پارلیمانی استحکام آجانے کے باوجوداپریل 2022ءسے پہلے تک برسراقتدار آنے والی تینوںحکومتوں کی معاشی پالیسیاں دیرپا ثابت نہ ہوسکیںاور ان کی تان 2019میں شروع ہونیوالے ڈالر کے بحران پرجاکر ٹوٹی ۔ چار سال تک روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور دوسرے عوامل کے باعث غیر ملکی قرضوں کی مالیت 28ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 67ہزار روپے پر پہنچ گئی۔اس عرصے میں اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے انتہائی پست سطح پر آجانے والے ذخائر تین بار معیشت کو دیوالیہ پن تک لانے کی وجہ بنے۔افراط زر اور مہنگائی نے تمام حدیں عبور کرلیں۔خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح 33فیصد سے بڑھ کر 40فیصد پر آگئی۔قومی کمرشل ادارے جو 60اور70کی دہائی میں منافع دےرہے تھے ،آج معیشت کیلئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں، اسٹیل مل اور پی آئی اےاس بات کا حوالہ دینے کیلئے کافی ہیں۔2013میں شروع ہونے والا پاک چین اقتصادی ترقیاتی پروگرام(سی پیک) کئی برس پیچھے چلا گیا اور توانائی بحران نے رہی سہی کسر پوری کردی جسے صنعتی شعبہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔کسی بھی دیوالیہ معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرتے وقت تمام معاشی اشاریوں کی بنیادی شرح بڑھ جاتی ہے ۔ ڈالر کو استحکام دینے کی خاطرگزشتہ برس 270اور 280روپے کی سطح پر لایا گیا۔اس سے قبل یہ ساڑھے تین سو روپے کی حد پار کرچکا تھا۔اب ڈالر کی مستحکم قدرمعاشی اصلاحات پروگرام کو جلا بخشنے میں معاون ثابت ہورہی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی بلا تاخیر معاشی اصلاحات ایجنڈے پر کام شروع کیا،دوماہ بعد اس کا ایک سال مکمل ہونے کو ہےاور حیرت انگیز طور پر اس کے حوصلہ افزا نتائج سامنےآنے لگے ہیں۔اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)سمیت پاکستان کے تجارتی شراکت دار اور دوست ممالک ،عالمی اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی کھلے دل سے تسلیم کر رہے ہیں۔جمعرات کے روز اوورسیز انویسٹرچیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی پاکستان سے متعلق جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ پر وزیراعظم شہباز شریف نے اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ وزیراعظم ہائوس سے جاری کردہ بیان کے مطابق صرف دس ماہ کے عرصے میں ملک کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کا گراف 2فیصد سے بڑھ کر 6فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔جبکہ خدمات کے شعبے کی گروتھ 7فیصدسے بڑھ کر 30فیصد پر آگئی ہے۔یہ صورتحال عالمی سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش اور روزگار کے مواقع بڑھنے کی طرف ایک واضح پیغام ہے۔پاکستان ادارہ شماریات اور اسٹیٹ بینک نے انفارمیشن ٹیکنالوجی،بالخصوص خدما ت کے شعبے کی برآمدات میں اضافے کی شرح ایک سال میں 24فیصد بتائی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کے بقول، اس پیشرفت نے آئی ٹی برآمدکنندگان کو پاکستان میں منافع واپس لانے کی تحریک دی ہے۔ان کا کہنا بجا ہے کہ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں کے ثمرات ملنا شروع ہوگئے ہیں ۔متذکرہ رپورٹ مالی سال 2024-25کے پہلے چار ماہ کے معاشی نتائج کو اجاگر کررہی ہے جبکہ ابھی اس کے 8ماہ باقی ہیں ۔تاہم ملک کا اصل مسئلہ پست ترین فی کس آمدنی کا ہے،جس میں 6سال سے کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ عام آدمی اپنی ماہانہ آمدنی محض دووقت کی روٹی پر خرچ کرنے کا ہوکر رہ گیا ہےجبکہ بچوں کی تعلیم اور صحت سمیت دیگرضروریات زندگی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔حکومت کو اس بارے میں غوروفکر کرنا چاہئے۔