تحریر: محمد عمر توحیدی … اولڈہم شہید ناموس صحابہ ،جرنیل اہلسنت مولانا اعظم طارق شہید نے صحابہ کرام کی مقدس جماعت کی حرمت و عزت کے تحفظ میں زندگی بتائی،اسی کوشش میں اپنی جان کی بازی لگائی اور اسی راہ میں شہید ہو کر وہ داستان مہر و وفا رقم کی جس کے نقوش تا ابد مٹائے نہیں جا سکیں گے۔ مولانا اعظم طارق شہید جرات، ہمت اور عزیمت کی قابل رشک داستان کا عنوان ہیں،سنیت ان پر ناز کرتی ہے اور دین حق انہیں اپنے ماتھے کا جھومر سمجھتا ہے۔ جس مشن کے لیے انہوں نے اپنی جان وقف کر رکھی تھی،اسی پر شہادت کا تمغہ حاصل کر کے ہمیشہ کے لیے اپنا نام تاریخ کے عبقری کرداروں میں شامل کر لیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کےلیے جہد مسلسل اور لازوال قربانیوں کی بدولت آپ مقبولیت اور محبوبیت کے اس مقام پر فائز ہوئے جس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ میرا قلم اس عظیم المرتبت انسان کی سیرت و شہادت پہ کچھ لکھنے سے قاصر ہے،انہوں نے کم عمری میں ہی جھنگوی شہید کے مشن پر لبیک کہی اور ان کے موقف کو حرز جان بنا لیا، پھر راہ حق و وفا میں اسی صداقت کا پھریرا لے کر نکلے، یہاں تک کہ ان کی آواز محراب و منبر سےسلطنت کے ایوانوں تک گونج گئی۔کلمہ حق بلند کرنے کی پاداش میں کیا کچھ نہ ہوا آپ کے ساتھ، مگر آفرین ہے کہ ہر ظلم، ہر جبر اور ہر اذیت برداشت کرلی لیکن اپنے شہید قائدین اور کارکنوں کے خون سے باندھے ہوئے عہد وفا سے دست بردار نہ ہوئے اور اسے اس طرح نبھایا کہ وفا بھی اس پر ناز کرتی ہے۔ دفاع ناموس اصحاب رسول ؓ کی اس تحریک کے افراد کو اعظم طارق کے اس صاف ستھرے کردار پرفخر ہےاور ہم اپنے مخالفین اور حاسدین و ناقدین کو دعوت دیتے ہیں کہ ذرا اپنے فلسفے، مشن اور کاز پر اعظم طارق کی طرح ثابت قدم رہ کر تو دکھاؤ، گھر میں بیٹھ کر بلند و بانگ دعوے کرنا اور بڑے، بڑے جلسوں میں انقلابی فلسفے کی تفصیلات بیان کرنا بہت آسان ہے لیکن اعظم طارق کی طرح اپنے مشن اور کاز پر جان کی بازی لگا دینا اور عقوبت خانوں سے گزرنا بہت مشکل ہے۔ مولانا اعظم طارق اور ان کے رضاکاروں کے خلاف اٹھتے بیٹھتے طعن و تشنیع کے تیر برسانا تو تمہیں آتا ہے، لیکن ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ دین حق کی حفاظت، اسلام کی سربلندی اورعظمت و ناموس صحابہ کی خاطر جو قربانی مولانا اعظم طارق دے گئے ہیں اس کا عشر عشیر بھی تم پیش نہیں کر سکتے۔ مولانا اعظم طارق شہید گہرے سانولے رنگ، مضبوط اعضاء اور فولادی اعصاب کے مالک ایک خوب صورت انسان تھے، مجھے ان سے عشق تھا اور میری آنکھوں نے ان سے زیادہ خوب صورت انسان نہیں دیکھا۔ میری ان کیساتھ بہت سی خوب صورت یادیں وابستہ ہیں، ایک بار میں انہیں دبا رہا تھا، اسی دوران میں نے کہا کہ یہیں جہاں آپ لیٹے ہوئے ہیں، میں نے ایک دن مولانا ضیاء الرحمن فاروقی کو بھی دبایا تھا تو کہنے لگے، اچھا! کیا تمھارے دبانے سے وہ دب گئے تھے؟ تومیں بے ساختہ ہنس پڑا۔ اعظم طارق کی آخری چالیس دن کی ڈائری جو مطبوعہ ہے اس میں انہوں نے حضرو، چھچھ کا ذکر بھی کیا، حمید گاؤں میں ان کی تقریرتھی جو علاقہ چھچھ میں ان کی آخری تقریر ثابت ہوئی، برادرم صفدر خان حضروی کے گھر ان کی دعوت تھی، وہاں محترم صفدر کے پوچھنے پر فرمانے لگے: “جب میں جیل میں تھا تو عمر توحیدی کے بڑے لمبے، لمبے خط آتے تھے، پڑھنے میں بہت مزا آتا، جب سے رہا ہوا ہوں، کوئی 2 مرتبہ فون پر رابطہ ہواہے”۔ اور یہ بات آپ کی شہادت کے بعد مجھے مولانا نواب الحسن شہید نے تقریب ختم بخاری جامعہ اشاعۃ القرآن حضرو میں پہلی اور آخری ملاقات میں بھی بتائی، کہ تمھارے خط اور اخباری بیان و مضمون اٹک جیل میں جب آتے، میں اور مولانا مل کر ان کو پڑھتے،اعظم طارق شہید کی خوشی دیدنی ہوتی۔ آپ فروری 1991میں صرف دس روز کیلئے جھنگ آئے تھے لیکن ان کا آنا اہل جھنگ کو اتنا بھایا کہ تادم شہادت بل کہ شہادت کے بعد بھی انہوں نے مولانا کو جھنگ سے جدا نہیں ہونے دیا۔ مولانا نے اہل جھنگ سے بے وفائی نہیں کی اور اہل جھنگ نے بھی اپنا آپ مولانا پر لٹا دیا، نسلوں سے جھنگ کی سیاست پر مسلط جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا فسوں توڑا اور اپنے ووٹوں سے مولانا کو قومی اسمبلی کا ممبر بنوایا، انہی کی وجہ سے مولانا نے جھنگ کی افسر شاہی کو پے در پے شکستوں سے دو چار کیا اور صرف ممبر بن جانے پر اکتفا نہیں کیا بل کہ جھنگوی موقف کو بھی اسمبلی تک پہنچایا اور عوام سے عوامی فلاح وبہبود کیلئے گئے وعدے بھی پورے کیے، جھنگ میں کالج قائم کئے، صنعت و حرفت کو ترقی دی، رفاہ عامہ کے بہت سے کام کئے، سب سے پہلے جھنگ میں سوئی گیس آپ ہی لائے، راتوں کوجھنگ کی گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے۔ آپ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل باعمل عالم دین تھے، آپ کی جرات اور بہادری قابل دید تھی، کسی بھی موقع پر آپ نے کمزوری کا مظا ہرہ نہیں کیا اور بلاخوف وخطر ڈنکے کی چوٹ پر حق بات بیان کی، بل کہ آپ کی تیکھی ظرافت بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر کو ذہنی جھٹکے سے دوچار کردیتی، کسی حاکم و حکمران کا رعب و دبدبہ آپ کی ابرو بھی نہ جھکا سکا۔ آپ کی بہادری ضرب المثل تھی اور اس کے قصے محفلوں میں مزے لے، لے بیان کئے جاتے، دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں آپ نے برستی گولیوں میں اپنی تقریر جاری رکھی۔ لاہور بم دھماکے میں آپ کو شدید زخمی کیا گیا، ٹی وی پر اپنے مخالفین کیساتھ گفتگو پہلے سے طے تھی80سے زائد زخموں اور پٹیوں میں لپٹے ہوئے وجود کیساتھ آپ ہسپتال سے ٹی وی سٹیشن پہنچے لیکن مخالف کو سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آپ پر مجموعی طور پر بارہ حملے کیے گئے، گیارہ حملوں میں جسم اگرچہ زخموں سے سج گیا لیکن جان سلامت رہی، 2003کو آپ اسمبلی کے اجلاس کیلئے اسلام آباد جا رہے تھے جیسے ہی گولڑہ موڑ پر پہنچے تو پہلے سے گھات میں بیٹھے قاتلوں نے دن دیہاڑے آپ پر حملہ کر دیا، ظالموں نے پورے، پورے میگزین آپ پر خالی کر دیئے، یہ بارہواں حملہ تھا جو جان لیوا ثابت ہوا اور آپ وہیں جام شہادت نوش فرمائے گئے آپ شیروں کی مثل زندہ رہے اور بہادروں کی طرح سینے پر گولیاں کھا کر ہنستے مسکراتے شہید ہوئے۔