پروفیسر خالد اقبال جیلانی
یہ ایک حقیقت ہے کہ مقصد زندگی کے تعین میں ہم بحیثیت مسلمان کج فہمی کا شکار ہیں اور ہمیں اس کا ادراک و شعور تو دور کی بات ہے احساس تک نہیں، اور ہماری کیفیت کچھ ایسی ہے،’’کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا‘‘ اس احساس زیاں جاتے رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم حقیقی ایمان و ہدایت سے محروم ہیں، اس کے ساتھ نہایت تعجب اور تاسف کی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ جسے اللہ نے اپنے حبیب ﷺ پر نازل کردہ آخری وحی قرآن کریم کے ذریعے مقصد زندگی سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا، آج اس سے غافل ہو کر کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی طرح دنیوی زندگی اور اس کے متعلقات ہی کو اپنا مقصد حیات بنا چکی ہے۔
مال و منال، ثروت و حکومت اور عیش و عشرت کے حصول دنیاوی جاہ و حشم کی تمنا و آرزو ہی اب مسلمانوں کا مقصد حیات رہ گیا۔ یہ دنیا نہ آرام وآسائش کی جگہ ہے اور نہ ہی اس کے حصول کی کوشش اس عارضی و فانی زندگی کا مقصد ہے۔
قرآنی فلسفۂ حیات کے مطابق یہ تمام چیزیں جن کے لئے انسان کوشاں ہیں انسان کی آزمائش کے لئے ہیں نہ کہ آسائش کے لئے ،بلکہ انسان کا تو مکمل وجود ہی سر تا پا آزمائش ہی سے عبارت ہے ۔ فرمان خدا وندی ہے کہ ’’ اسی نے موت و زندگی کو پیدا کیا ،تا کہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون ’’حسن عمل‘‘ کا مظاہرہ کرتا ہے‘‘ (سورۂ ملک:۲) انسان اگر کائنات میں پھیلی ہوئی اشیاء پر غور و فکر کرے تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تمام اشیاء انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہی پیدا کی گئی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق و مالک ،رب اور معبود نے ایک عظیم تر مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اس مقصد کو قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا کہ ’’ہم نے انسان و جنّات کو صرف اور صرف اپنی عبادت ہی کے لئے پیدا کیا ہے‘‘ (سورۃ الذاریاتـ: ۵۶) معلوم ہوا کہ انسان کی تخلیق و پیدائش اور مقصد حیات اللہ کی عبادت اور اس کی رضا و خوشنودی کا حصول ہے۔
مسلمانوں کی اکثریت اس بات سے آگاہ بھی ہے اور اپنے قول سے اس کا اقرار بھی کرتے ہیں، لیکن ان کی روش زندگی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے مقصد تخلیق کو اپنا مقصد حیات نہیں بنایا،بلکہ بعض مسلمانوں کے قول و عمل سے تو ایسا لگتا ہے ان کے نزدیک اس دنیا کی زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے ہی نہیں اور انہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور حساب کتاب ، جزاو سزا سے کوئی واسطہ نہیں پڑنا۔
مسلمانوں کا ایک دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی نہ کسی درجے میں اللہ کی عبادت کو اپنی زندگی کا مقصد تو سمجھتا ہے اور کسی حد تک اسے پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا ہے، لیکن وہ لفظ ’’عبادت‘‘ کی ناقص فہم کا شکار ہے۔
اس گروہ کے نزدیک ’’عبادت، نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰ ۃ و صدقات ، قربانی، ذکر و دعا وغیرہ تک ہی محدود ہے اور زندگی کے دیگر مختلف شعبوں میں عبدیت اور بندگی کا کوئی تصور اس کے نزدیک نہیں، اس لئے وہاں وہ اپنے آپ کو آزاد تصور کرتا ہے۔ اس ناقص فہم ہی کا نتیجہ ہے کہ بعض لوگ نماز روزے کے تو بڑے پابند نظر آتے ہیں، لیکن معاملات ان کے انتہائی خراب ہوتے ہیں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز ہو یا روزہ یا دیگر عبادات یہ سب اعمال شریعتِ اسلامی کے تجویز کردہ خاص عبادات اور شعائر اسلام ہیں۔ مقصد حیات ہونے کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کے دائرہ کی وسعت زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہو اور حقیقت میں ہے بھی ایسا ہی۔
لفظ عبادت پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عبادت مکمل اطاعت و فرماںبرداری کا نام ہے۔ جس میں انتہا درجے کا خضوع، تذلّل اور عاجزی شامل ہو اور جس کا محرک اللہ کی عظمت و محبت ہو اس کا دائرہ ظاہر ہے چند مخصوص اسلامی عبادتوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ یہ زندگی کے تمام شعبوں کو اپنے وسیع دائرے میں سموئے ہوئے ہے۔ اسلام تلقین کرتا ہے کہ دنیا کے ضروری رشتوں اور تمدن کے بندھنوں میں جکڑا انسان اللہ کی بندگی کرے۔
اس کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ بندگی سے خالی نہ ہو۔ دنیا میں جو کچھ کرے اللہ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق کرے۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، ملنا جلنا اور چلنا پھرنا سب کچھ اللہ کے قانون کی پابندی میں ہو۔ گھر میں بیوی بچوں، محلے میں پڑوسیوں ، دفتروں ، کارخانوں میں ساتھیوں، بازاروں میں تاجروں اور خریداروں ، اسکول و کالج اور جامعات میں کلاس فیلوز کے ساتھ برتاؤ کرتے وقت ایک ایک بات اور ہر کام میں وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کا خیال رکھے، کیوں کہ انسان کا مقصد تخلیق ہی عبادت ہے۔ اس لئے انسان کی پوری زندگی عبادت سے عبارت ہونی چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ وہ کہیں اللہ کا بندہ رہے تو کہیں نفس کا تابع، کہیں اللہ کا فرماںبردار ہے اور کہیں باغی، کہیں اللہ کا غلام رہے اور کہیں آزاد۔
مومن کو صرف نماز ، روزے ، تلاوت و اذکار وغیرہ میں ہی محدود ہو کر یہ سمجھنا کہ ہم نے مقصد حیات کو حاصل کر لیا ،درست نہیں ۔ جب تک کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام متعلقہ شعبوں یعنی اخلاقیات، معاملات، معیشت ، معاشرت، سیاست و نظام حکومت اور نظام عدل و انصاف وغیرہ میں اللہ کے احکامات کو نافذ نہ کرے، جس نے متعلقہ شعبوں میں اللہ کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور کامل اطاعت پر پابندی برتی ،وہ عبادت و بندگی کے حق کو ادا کرنے کی سعی کرنے والا کہلائے گا۔
نیز یہ کہ اللہ کی اطاعت میں اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت و اتباع بھی شامل ہے۔ اس لئے بندگی کے اس مقام و مرتبہ کو حاصل کرنے والے کے لئے کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔ فرمایا گیا:’’اور جس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کی تو یقیناً اس نے بڑی کامیابی حاصل کی‘‘۔ (سورۃالاحزاب:۷۱)
یہ تو وہ بنیادی مقصد تھا جس کے لئے اللہ نے ساری انسانیت کو پیدا فرمایا، اس کے ساتھ ہی ایک اور ہدف بھی ہے جسے مسلمانوں کو اپنی زندگی مقصد بنانا چاہیے۔ وہ یہ ہے کہ تما م ادیان باطلہ پر دین اسلام کو غالب و نافذ کرنے کی کوشش اورجد و جہد کرنا۔
نبی کریمﷺ کی بعثت کا بنیادی مقصد یہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے ہی واضح اور وا شگاف الفاظ میں فرمایا ’’و ہی تو ہے جس نے اپنے رسول ﷺکو ہدایت (کا سامان یعنی قرآن) اور دین حق (اسلام) دے کر بھیجا، تا کہ وہ اس دین کو (دنیا کے)تمام ادیان باطلہ پر غالب کردے، چاہے یہ بات کافروں ، مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گزرے‘‘ ۔(سورۃالتوبہ ۳۳)
اس مقصد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں بعثت و رسالت محمدی کے اس مقصد کو تین بار بیان کیا گیا ہے۔ دین اسلام کو دیگر تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے کا یہ مشن معقولیت اور دلیل و حجت کے اعتبار سے بھی ہے کہ ہر شخص پر یہ عیاں ہو جائے اور حکومت و سلطنت کے اعتبار سے بھی ہے، یعنی نظام خلافت اسلامی کا قیام عمل میں آجائے اور طاغوتی طاقتیں اسلامی حکومت کے آگے سرنگوں ہوجائیں۔
ان مقاصد کو حاصل کرنے کے دلائل ، حجت و برہان اور حکمت کے ساتھ اقوام عالم کو اسلام کی دعوت دینا، نو واردوں کی تعلیم و تربیت اور دعوت کی راہ میں حائل ہونے والی مخالف قوتوں کا استیصال وغیرہ حکمت عملی رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے ثابت ہے۔
یہاں کسی کو یہ اشکال نہ ہو کہ دین اسلام کو غالب و نافذ کرنے کا یہ مشن رسول اللہ ﷺ تک ہی محدود تھا اور بعد کے ادوار میں ساقط ہوگیا، اگر ایسا ہوتا تو خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓاس کے لئے اتنی قربانیاں نہ دیتے اور نہ ہی اتنی مشقتیں اٹھاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس مشن میں آپ ﷺ کی امت بھی برابر کی شریک ہے۔ جس کی وضاحت قرآن کریم نے یوں کی ہے: آپﷺ فرما دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے اور میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ۔ سمجھ بوجھ کے مطابق میں (بھی) اور وہ (بھی) جس نے میری پیروی کی‘‘۔(سورۂ یوسف،،۱۰۲)
اس لئے امت کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اس مشن کو آگے بڑھانے کا کا م کرے اوراجتماعی طور پر ہر دور میں اسلام کو تمام ادیان باطلہ اورغیر خدا وندی نظام ہائے زندگی پر غالب و نافذ کرنے کی سعی کرے۔ افسوس آج امتِ مسلمہ نے اس سبق کو بھلادیا اور ہم اس دین حق کو تمام ادیان باطلہ اورغیر خداوندی نظام ہائے زندگی پر غالب کرنے کی فکر تو کیا کرتے ، خود اپنے گھروں سے ہی اسے نکال باہر کیا کہ آج ہمارے گھروں میں غیروں کے طریقے تو زندہ ہیں ،لیکن نبی کریمﷺ کا طریقہ گویامٹ چکا ہے۔
ہم اپنے بچوں کو یہ توسکھاتے ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر وغیرہ بننا ہے ،تا کہ مال و دولت اور آرام و آسائش کی چیزوں کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے ،لیکن ہم انہیں یہ نہیں بتاتے کہ بحیثیت مسلمان ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ جن کی ادائیگی پر ان کی دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی کا انحصار ہے۔ عصری علوم کا حاصل کرنا کوئی غلط بات نہیں، اگر نیتوں کی درستی کے ساتھ حاصل کئے جائیں تو عین دین ہیں اور ان سے بہت سی دینی منفعت حاصل کی جاسکتی ہے۔
ان کا حصول زندگی کا وقتی مقصد تو ہوسکتا ہے لیکن حتمی مقصد نہیں ہوسکتا۔ انسان کی فکر اگر صحیح ہو تو انہی ڈگریوں اور عہدوں کا استعمال اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے کرسکتا ہے ۔ اپنے علم سے لوگوں کو نفع پہنچا سکتا ہے اور اپنے شعبے میں عملی نمونہ بن کر دین کو زندہ کر سکتا ہے، لیکن کب ، جب ہم اپنے بچوں کی عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم و تربیت کا بھی بہترین انتظام کریں، تاکہ ہمارے بچے دنیا کے میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں، ساتھ ہی ساتھ اپنی عملی زندگی میں وہ اللہ کی بندگی کا بہترین حق ادا کرنے والے بھی بنیں اور بہترین رول ادا کر سکیں۔
یاد رکھیں اللہ کا دین تو زند ہ ہوگا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے پیش گوئی کی ہے کہ ’’یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ جائے گا، جہاں تک دن اور رات کا چکر چلتا ہے اور اللہ کوئی کچا اورپکا گھر ایسا نہیں چھوڑے گا جہاں اس دین کو داخل نہ کر دے، خواہ اسے عزت کے ساتھ قبول کر لیا جائے یا اسے رد کر کے ذلت قبول کر لی جائے۔ عزت وہ ہوگی جو اللہ اسلام کے ذریعے عطا کرے اور ذلت وہ ہے جس سے اللہ نافرمان بندے کو ذلیل کر دے گا‘‘۔(مسند احمد)
ان سب کا حاصل کلام یہ ہے کہ دین تو سارے عالم کے اندر غالب ہو کر رہے گا، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کی سعی کی سعادت حاصل کرنے والوں میں کیا ہمارا بھی نام ہو گاـ؟ رسول اللہ ﷺ سے ہم جو محبت کا دعویٰ کرنے اور شفاعت کی امید رکھنے والے ہیں ، کیا اس محبت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ ہماری زندگی کا بھی وہی مشن ہو جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مشن تھا۔
روز قیامت اگر اللہ کے رسول ﷺ نے یہ پوچھ لیا کہ تم نے میرے دین کو زندہ رکھنے ، غالب و نافذکرنے کے لئے کیا کیا تو ہم کیا جواب دیں گے ؟ اور خوف تو یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے کہیں ہماری جگہ کسی اور قوم کو کھڑا کردیا اور ان سے اقامت دین کا کام لے لیا اور ہمیں بالکل ہی کنارے کردے تو ہمارا کیا بنے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے کوئی اس وقت مومن نہیں ہوسکتا ،جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس دین یا نظام زندگی تابع نہ ہو جائے جو میں لایا ہوں۔ ـَ