• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’موسم سرما‘‘ بندہ مومن کیلئے اللہ کی نعمت عظمیٰ، نیکیوں کا موسم بہار

ڈاکٹر نعمان نعیم

اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے چار موسم بنائے ہیں‘ بہار‘ گرمی‘ خزاں اور سردی۔ بہار میں کائنات کھل اٹھتی ہے‘ نئی کو نپلیں پھوٹتی ہیں‘ پھول نکلتے ہیں اور پھل لگتے ہیں‘ گرمی آتی ہے تو فصلیں پکتی ہیں‘ پھلوں میں رس پڑتا ہے‘فصلیں کٹنے کےلئے تیار ہوتی ہیں اور درختوں کے پتے ہوا اور سایہ دیتے ہیں‘ خزاں کے موسم میں ہر چیز مرجھا جاتی ہے‘ گھاس سوکھ جاتی ہے‘ پتے گر جاتے ہیں‘ شاخیں جھک جاتی ہیں‘ پھول غائب ہو جاتے ہیں‘ پانی کم ہو جاتا ہے اور چوتھا موسم سردی کا ہوتا ہے‘ سردی کے موسم میں پالے پڑتے ہیں‘ کہرا زمین کو ڈھانپ لیتا ہے اور برف زندگی کو منجمد کر دیتی ہے۔

کائنات کا وجود، اور اس میں ہونے والے تغیرات، جیسے مینھ برسنا، آندھیوں کا آنا،کہیں چلچلاتی دھوپ،اور کبھی دھوپ میں ہی بارش کا ہونا، ایسے ہی دریاؤں کا سوکھنا، آتش فشاؤں کا پھٹنا، دن رات کی آنکھ مچولی، ماہ وسال کا گزرنااور اس کے بدلتے اثرات، یہ سب اللہ جل شانہ کے وجود اور اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں، کہ کوئی ہے جو ان انتظامات کو سنبھا ل رہا ہے، اور کوئی ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام چیزوں کی ڈور ہے، تب ہی تو سمندر کی حدود قائم ہیں، اور وہ اپنی حد سے آگے نہیں بڑھتا، سورج روزانہ نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے، لیکن کبھی مغرب سے طلوع نہیں ہوا، بادل پانی ہی برساتا، آگ جلاتی ہی ہے، یہ تمام چیزیں اللہ رب العزت کے حکم کی محتاج ہیں، اور اسی کے فیصلے پر کاربند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا :" اور ہم نے ہر چیز کو ناپ تول کے ساتھ پیدا کیا ہے"۔(سورۃ القمر:49۔آسان ترجمہ قرآن)

اور ایک جگہ ان تمام چیزوں کی تخلیق اور ان کے مسخّر ہونے میں غور وفکر کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بے شک، آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔(سورۂ آل عمران:190) ایسے ہی موسموں کا بدلنا بھی اللہ تباک وتعالیٰ کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے۔

سردی ہو یا گرمی! ہر موسم عبادت کا موسم ہے، لیکن سردیوں میں کم وقت میں زیادہ ثواب کمانا نسبتاً آسان ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: موسمِ سرما مؤمن کا موسمِ بہار ہے کہ اِس میں دن چھوٹے ہوتے ہیں تو مؤمن ان میں روزہ رکھتے ہیں اور اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں تو وہ ان میں قیام کرتے (یعنی نوافل وغیرہ پڑھتے) ہیں۔ (شعب الایمان)

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: سردی کا موسم مومن کے لئے موسم بہار ہے، اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں ،جن میں وہ روزے رکھ لیتا ہے اور اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں ،جن میں وہ قیام کرلیتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی )

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سردیوں کے روزے رکھنا مفت میں اجر کمانا ہے۔ (طبرانی )

ہمارے بزرگانِ دین موسم سرما کی آمد پر خوش ہوتے اور اِسے عبادت میں اِضافے کا موسم قرار دیتے تھے، جیسا کہ حضرتِ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ موسمِ سرما کی آمد پر فرماتے: سردی کو خوش آمدید، اِس میں اللہ تعالیٰ کی رَحمتیں نازل ہوتی ہیں کہ شب بیداری کرنے والے کے لئے اِس کی راتیں لمبی اور روزے دار کے لئے دن چھوٹا ہوتا ہے۔ (فردوس الاخبار،ج 2)

حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمہیں چاہیے کہ رات کو قیام (بطور خاص تہجد ادا)کرو۔ اس لیے کہ تم سے پہلے نیک بندوں کی عادت بھی یہی تھی، یہ تمہارا اپنے رب سے قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، یہ عمل تمہاری برائیوں کو مٹانے والا اور تمہیں گناہوں سے بچانے والا ہے۔(جامع ترمذی، باب فی دعاء النبی ﷺ)

حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایسے شفاف کمرے ہیں کہ جن کے اندر کی طرف سے باہر کا سب کچھ نظر آتا ہے اور باہر کی طرف سے اندرکا سب کچھ نظر آتا ہے۔ ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ !یہ کن کے لیے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ،یہ اللہ نے ان لوگوں کے لیے تیار فرمائے ہیں جو نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، اکثر روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر نمازیں (تہجد) پڑھتے ہیں، جب کہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔(جامع الترمذی ،باب ماجاء فی صفۃ غرف الجنۃ )

حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرتا ہے جو آدھی رات کو اٹھتا ہے اور تہجد کی نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ اس کے چہرے پر(پیار سے) پانی کے چھینٹے مارتا ہے اور اللہ اس خاتون پر بھی نظر کرم فرماتا ہے جو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی تہجد کے لیے جگاتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ عورت (پیار سے) اپنے خاوند کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے۔(سنن ابوداؤد،باب قیام اللیل)

اللہ تعالیٰ کے نیک بندے سردیوں کی راتوں میں عبادت کو محبوب جانتے تھے۔حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا: سردی کا موسم عبادت گزاروں کے لئے غنیمت ہے۔(موسوعۃ لابن ابی الدنیا،ج1) حضرت صفوان بن سلیمؒ گرمیوں میں گھر کے اندر اور سردیوں میں چھت پر نماز پڑھتےتھے، تاکہ نیند نہ آئے۔(حلیۃ الاولیاء، ج3)

حضرتِ سیدنا عبید بن عمیر ؓ موسمِ سرما کی آمد پر فرماتے: اے اَہلِ قرآن! تمہاری قرأت کے لئے راتیں لمبی ہو گئی ہیں تو تم اِن میں قیام کرو، اور تمہارے روزوں کے لئے دن چھوٹے ہوگئے ہیں تو تم اِن میں روزے رکھو۔(احادیث الشتاء للسیوطی، ص97)

حضرت ابوعبداللہ محمد بن مفلحؒ فرماتے ہیں: سردی کے موسم میں رات کے اوّل حصّے اور گرمیوں میں دن کے اِبتِدائی حصّے میں ختمِ قراٰن مسنون ہے۔ (الآداب الشریعۃ لابن مفلح،ص688)

سردیوں میں دن چھوٹے اور موسم ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے بھوک اور پیاس کا اِحساس کم ہوتا ہے، لہٰذا اِس موسم میں روزے کا ثواب کمانا آسان ہے۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: سردی کے روزے ٹھنڈی غنیمت ہیں۔(ترمذی،ج 2،ص210)

سردی کی وجہ سے نماز میں سُستی مت کیجئے، بلکہ سردی کی مشقّت پر صبر کرکے اَفْضَلُ الْاَعْمَالِ اَحْمَزُہَا (یعنی افضل ترین عمل وہ ہے جس میں مشقّت زیادہ ہو۔(تفسیرِ کبیر،ج1،ص431) نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے سخت سردی میں کامِل وضو کیا اُس کے لئے ثواب کے دو حصے ہیں۔(مجمع الزوائد، ج1،ص542)

موسم سرما بےشک خشکی سے بھر پور موسم ہے، لیکن مومن کےلیےیہ بہار کا کام کرتا ہے، جس طرح بہار میں ڈھیروں پھول کھلتے ہیں، اور ہر طرف ہرے بھرے پیڑوں کی دلکشی ورعنائی انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے، اسی طرح سردیوں میں اعمال صالحہ پر بہ کثرت قادر ہونا، ان پر اجر کا بڑھ جانا، اس کی دیگر فضیلتیں مومن کو وہی مزا اور فائدہ پہنچاتی ہیں ، جیسا لطف انسان بہار کے موسم میں اٹھاتا ہے، وہ نیکیوں کے باغات میں خوب چرتا ہے، اور اعمال صالحہ کے میدانوں میں خوب دوڑیں لگاتا ہے، چنانچہ ابو سعید خدری ؓ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں : سردی کا موسم مومن کےلیے بہار ہے، سردیوں کا دن چھوٹا ہوتاہے، چناںچہ وہ اس میں روزہ رکھتا ہے، اور رات لمبی ہوتی ہے، چنانچہ وہ اس میں قیام کرتا ہے۔ایسے ہی حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں "سردی کا موسم عبادت کرنے والو ں کےلیے غنیمت کا موسم ہے"۔

ایسے ہی موسم سرما میں بوجہ مشقت مختلف اعمال کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے، اور ان پر اللہ تبارک وتعالیٰ ڈھیروں اجر عنایت فرماتا ہے۔ چناںچہ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے "کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ گناہ معاف کردے اور درجات بلند کردے؟ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! ضرور بتائیے! آپ ﷺ نے اِرشاد فرمایا: (سردی وغیرہ کی) مشقت اور ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور مساجد کی طرف کثرت سے قدم بڑھانا، پس یہی رباط (یعنی اپنے نفس کو اللہ کی اِطاعت میں روکنا) ہے"۔

سردی کی شدت کی وجہ سے اکثر نرم گرم بستر کو چھوڑ کر اٹھ کر وضو کرنا اور مسجد جانا ایک شاق امر ہے، اسی لئے نبی کریم ﷺ نے اسے گناہوں کی مغفرت اور درجات کی بلندی کا سبب بتایا ہے۔ معلوم ہوا کہ سردی کا موسم کثرت کے ساتھ عبادات کرنے کے لیے ایک بہترین موقع ہے۔

یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سردیوں کا موسم عبادت کا موسم بہارہے۔ چھوٹے چھوٹے دن ہیں ، لمبی لمبی راتیں ہیں۔ دن کو روزہ رکھیں، نہ ہی بھوک اور نہ ہی پیاس ستاتی ہے۔ ان دنوں میں رمضان کے قضا روزے بھی آسانی سے رکھے جا سکتے ہیں۔ راتیں بہت لمبی ہیں۔ تلاوت ، ذکر، درود پاک ، نوافل ، قضا نمازیں اور معتبر دینی کتب کا مطالعہ وغیرہ جیسی عبادات میں خرچ کریں۔

اقراء سے مزید