تفہیم المسائل
سوال: ایک شخص نے اپنی ملکیت شدہ زمین کو مسجد کے لیے وقف کرنے کا ارادہ کیا تھا ، وقف نہیں کیا تھا کہ اسی سوچ بچار کے دوران اُس جگہ کے قریب ایک نئی مسجد بن چکی ہے۔ چونکہ اب وہاں مسجد کی ضرورت بالکل نہیں رہی ،تو کیا مالک اب وہ جگہ مدرسہ یا فلاحی ادارے کے لیے وقف کر سکتا ہے یا وہ جگہ فروخت کر کے کسی اور جگہ مسجد بنا سکتا ہے یا وہ رقم مساجد وغیرہ میں تقسیم کر سکتا ہے،(محمد شعبان قادری ، گجرانوالہ)
جواب: محض دل میں نیت اور ارادہ کرلینے سے کسی شے پر وقف کے احکام ثابت نہیں ہوتے، وقف کرنے کے لیے مخصوص الفاظ ہیں ،جن سے وقف صحیح اورلازم ہوجاتا ہے ،وقف کے الفاظ یہ ہیں :’’ میری یہ جائیداد صدقۂ موقوفہ ہے یا میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اِسے وقف کیا یا فلاں مسجد یا مدرسہ یا فلاں نیک کام پر وقف کیا ‘‘۔
کسی جگہ کو مسجد کے لیے وقف کیے جانے سے وقف مکمل ہوتا ہے اور لوگوں کو وہاں اذان، نماز اور باجماعت نمازکی اجازت دینے سے ہی اس جگہ پر مسجدِ شرعی کا اطلاق ہو جاتا ہے، تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ: ’’کسی شخص کے یہ کہنے سے کہ میں نے زمین کے اس حصے کو مسجد بنا دیا ہے یا عملاً اس میں نمازپڑھی جارہی ہے، وہ زمین اس کی ملکیت سے نکل جائے گی، (ردّالمحتارجلد 6ص:426، بیروت )‘‘ ۔
مسجد بنانے کے لیے تو یہ ضروری ہے کہ اُس جگہ کو اپنی مِلک سے بالکل جدا کردے ،اس کی مِلک اس میں باقی نہ رہے ، آپ کے بقول اُس جگہ پر ایساکوئی تصرُّف نہیں کیاگیا ،نہ اپنی مِلک سے جدا کیا بلکہ محض ارادہ ہی کیاتھا کہ قریب میں دوسری مسجد بن گئی ، اب اس جگہ مسجد بنانے سے اس مسجد کا ویران ہونا لازم آئے گا، لہٰذا حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ اس جگہ کو کسی صدقۂ جاریہ (مثلاً : مدرسہ یا خیراتی اسپتال وغیرہ) کے لیے وقف کردیں یا سوال میں جیساکہ آپ نے لکھا :’’مالک اب وہ جگہ مدرسہ یا فلاحی ادارے کے لیے وقف کر سکتا ہے یا وہ جگہ فروخت کر کے کسی اور جگہ مسجد بنا سکتا ہے ‘‘، کسی بھی مصرف کے لیے وقف کیے جانے سے قبل زمین کے مالک کو اس بات کا اختیار ہے ،بہتر یہ ہے کہ دینی اورمقامی ضرورت کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلہ کریں اور اس جگہ کو کسی بہتر مصرف میں لائیں ۔(واللہ اعلم بالصواب)