لندن (پی اے) وزیر داخلہ یوٹ کوپر نے کہا ہے کہ نوجوانوں کیلئے انسداد دہشت گردی کے نئے قانون سے آن لائن سرگرمیوں کو محدود اور کم عمر نوجوانوں میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے مسائل پر قابوپا یا جاسکے گا۔ یوٹ کوپر نے کہ مجوزہ قانون میں آن لائن سرگرمیوں کو محدود کرنے اور انسداد دہشت گردی پروگرام کے ساتھ تعاون کرنے کی شرط عائد کی جاسکتی ہے، یہ کارروائی ایم آئی 5کے سربراہ کن مک کیلم کی جانب سے جاری کئے جانے والے اس انتباہ کے بعد کی جا رہی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ نوجوان آن لائن انتہا پسندی کے زہریلے پروپگنڈے اور مواد سے متاثر ہورہے ہیں، ایم آئی 5نے برطانیہ میں دہشت گردی کے حوالے سے جن لوگوں سے پوچھ گچھ کی ہے ان میں سے کم وبیش 13 فیصد نوجوانوں کی عمریں18سال سے کم تھیں۔ ستمبر 2010کے اختتام پر دہشت گردی سے متعلق جرائم کےالزام میں گرفتار ہونے والے 18سال سے کم عمر افراد کی تعداد صرف 3تھی، لیکن ستمبر 2024تک کے 12مہینوں میں یہ تعداد 32ہو گئی۔ دہشت گردی سے بچاؤ کے پروگرام ’’پریونٹ‘‘ میں کی جانے والی تمام حوالگیوں میں سے تقریباً 40فیصد 11سے15 سال کی عمر کے بچوں کی ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے قوانین کے نگران جوناتھن ہال کیو سی نے بھی خبردار کیا ہے کہ مبینہ دہشت گردوں کی پروفائل میں نوجوانی سرفہرست آ رہی ہے اور ان میں ایسے بچے بھی شامل ہیں جنہیں درست طور پر کمزور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یوٹ کوپر نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ نئے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں شامل ہونے والے نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے تناسب کا مقابلہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ جب برطانیہ کے پاس دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط طریقہ کار ہے، جس میں دہشت گردی کے خطرات کو بڑھنے سے روکنے کے لئے اقدامات شامل ہیں، یہ طریقہ کار فی الحال نوجوانوں کے ساتھ نمٹنے کے لئے اچھی طرح سے ڈیزائن نہیں کیے گئے ہیں۔ لہٰذا حکومت نوجوانوں کے لیے دہشت گردی کے خطرات کے انتظام کے آلے کے طور پر یوتھ ڈائیورژن آرڈرز متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے، جو جوناتھن ہال کیو سی کی سفارشات پر مبنی ہے۔ پولیس عدالتوں سے یوتھ ڈائیورژن آرڈر کے لیے درخواست دے سکیں گی، جس کی مدد سے وہ دیگر اداروں کے ساتھ مل کر جلد مداخلت کر سکیں گے اور ایسی شرائط عائد کر سکیں گے جس میں انسداد دہشت گردی کے پروگرام میں شامل ہونا یا آن لائن سرگرمیوں پر پابندیاں شامل ہے۔انھوں نے کہا کہ عدالتوں کو یہ شرائط ضروری اور متناسب قرار دینی چاہئیں تاکہ دہشت گردی کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ ہوم آفس نے کہا کہ اسلامی دہشت گردی اب بھی بنیادی خطرہ ہے، اس کے بعد انتہا پسند دائیں بازو کی دہشت گردی ہے، ہوم آفس کاکہناہے کہ مجموعی طور پر خطرے کا منظرنامہ بدل رہا ہے جس میں انتہا پسندی کے آن لائن پروپیگنڈے یا مواد سے متاثر ہونے والوں میں نوجوانوں کی اکثریت ہے جو کسی خاص نظریہ سے ہم آہنگ نہیں ہوتے بلکہ ان کی تشویش تشدد کے ساتھ ہوتی ہے۔ حالیہ پریونٹ کے اعداد و شمار سے پتا چلا کہ زیادہ تر حوالہ جات ان افراد کے لیے ہیں جن کا کوئی نظریہ نہیں ہے لیکن وہ کسی خطرے کا شکار ہیں۔ یوٹ کوپر نے پریونٹ پروگرام میں تبدیلیوں اور اس کی نگرانی کے لیے ایک نئے کمشنر کے تقررکا وعدہ کیا۔ انہوں نے ارکان پارلیمنٹ کو کو بتایا کہ نظام میں ابہام بہت ہے اور ہمیشہ یہ واضح نہیں ہوتا کہ کن مقدمات کو پریونٹ کے تحت نمٹانا چاہیے۔ اسلامی انتہا پسندی کے لیے حوالہ جات کی کم تعداد پر تشویش ابھی تک حل نہیں کی گئی، اور اسی دوران یہ ابہام برقرار ہے کہ کیا پریونٹ کو واضح نظریے والے مقدمات تک محدود رکھا جانا چاہیے یا ایسے مقدمات کو بھی اٹھانا چاہیے جہاں نظریہ کم واضح ہو یا جہاں تشدد کی طرف رجحان ہو، انہوں نے کہا۔ پروگرام کے معیار کے مکمل جائزہ اور دیگر کئی تبدیلیوں کے ساتھ، نیا پریونٹ پروگرام نگرانی فراہم کرے گا۔ پریونٹ کا نیا کمشنر انڈیپنڈنٹ ہوگا اور وہ پروگرام کے مؤثر ہونے کا جائزہ لے گا اور خامیوں کی نشاندہی کرے گا تاکہ کسی بھی مسئلے کو بروقت حل کیا جا سکے۔ حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگلے سال دہشت گردی کے خلاف پولیس کو فنڈنگ میں 140 ملین کا اضافہ کیا جائے گا اور برطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو 499 ملین کی اضافی فنڈنگ دی جائے گی۔