رابطہ۔۔۔۔ مریم فیصل ایک اور واقعہ ایک اور ہنگامہ، خبریں ہی خبریں، آنسو، آہیں، زخمی، لاشیں اور ذمے دار مسلمان، کہانی ختم پھر خاموشی اور پھر کچھ عرصے کی خاموشی کے بعد ایک اور واقعہ، الزام کی زد میں پھر سے مسلمان، نہ رکنے والا سلسلہ، کوئی چار یا پانچ برس قبل ایسے واقعات ہوتے تھے تب لوگوں کا یہی موقف ہوتا تھا کہ مسلمان نہیں بلکہ یہ مسلمان کو بدنام کرنے کی سازش ہے لیکن اب اس میں تبدیلی آنے لگی ہے اور دنیا اب یہ ماننے لگی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی چھڑی کا وار ہوگا یا کوئی گاڑی ہجوم پر چڑھ دوڑ ے قصوروار صرف اور صرف مسلمان ہوگا یا تو وہ پکا جہادی مسلمان ہوگا یا پھر نیا مسلمان بنا ہوگا اور اسلام قبول کرتے ہی سب سے پہلا کام اس کا یہی ہوگا یا تو چھڑی اٹھا لے یا پھر گاڑی لے کر غیر مسلمانوں کو کچلنا شروع کردے۔ بس یہی شناخت بن گئی ہے مسلمانوں کی، جرمنی کی کرسمس مارکیٹ والے تازہ ترین واقعے میں ملوث کی شناخت بطور مسلمان ہی کی جارہی ہے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ خود بھی اسلام مخالف تھا لیکن یہ اہمیت نہیں رکھتا بات تو یہی ہے کہ وہ مسلمان تھا، کہانی ختم پھر سے مسلمان ہی کیوں، کیوں دنیا کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ مسلمان صرف چھڑی چلانا اور جہاد کے نام پر لوگوں کو مارنا جانتا ہے کیوں دنیا کو یہ باور نہیں کروایا جا رہا کہ ایک مسلمان بھی ویسے ہی زندگی گزارتا ہے جیسی دنیا میں بسنے والی دوسری قوموں کے لوگ گزارتے ہیں، کمانے کی فکر میں، گھر بنانے کی فکر میں، اچھی تعلیم حاصل کرنے کی فکر میں، کیوں لوگوں کے دماغوں میں یہ بھر دیا گیا ہے کہ مسلمان صرف تباہی چاہتا ہے اور کہاں ہیں وہ لوگ جن کو مسلمان اپنا لیڈر مانتے ہیں، کیوں وہ مسلمانوں کی آواز نہیں بن رہے، بس یہ واقعات ہوتے جارہے ہیں اور مسلمان مخالف جذبات بڑھتے جارہے ہیں، برطانیہ اور یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے مشکلات بڑھ رہی ہیں یہاں ان کی زندگیاں تنگ ہو رہی ہیں لیکن کوئی کچھ نہیں کہہ رہا بس سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ امیگریشن پر سختیاں بڑھ رہی ہیں جن سے متاثر مسلمان ہی ہوں گے، اس واقعے کے بعد کیا فار رائیٹ والے خاموش بیٹھے رہے گے، ساؤتھ پورٹ واقعے کے بعد کس طرح فسادات پھوٹ پڑے تھے اور برطانیہ کے مسلمان دبک کر گھر بیٹھ گئے تھے، یہ کسی کو یاد نہیں، اس واقعے کے بعد بھی برطانیہ اور یورپ کی مسلمان کمیونٹی پریشان ہے کہ پھر سے ہم پر حملے نہ شروع ہوجائیں۔