• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: سردار پرویز محمود… ناروے
ہم نے چونکہ اپنی عمر کا بیشتر حصہ ترقی یافتہ دنیا میں گزارا ہے تو ہمارا فوکس موازنے پر رہتا ہے سیاست کا موازنہ، گورننس کا موازنہ، جمہوریت کا موازنہ، شخصی آزادی کا موازنہ، کلچر کا تجزیہ اور موازنہ، ہماری تحریر کا مقصد ہرگز کسی دوست احباب یا کسی بھی بیوروکریٹ یا سیاستدان کی دل آزاری نہیں ہوتا، ہم نے ایک پچھلی تحریر میں بھی انڈر ورلڈ کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق گوش گزار کرنے کی کوشش کی تھی۔ انڈر ورلڈ سے مراد ایک جرائم پیشہ تنظیم ہے جو اینٹی پبلک یا اینٹی سوسائٹی آپریٹ کرتی ہے۔ انڈر ورلڈ کی تحریک اور سرگرمی قانون اور دستور سے متصادم ہوتی ہے۔ یا یوں کہیں کہ انڈر ورلڈ کی سرگرمی قانون اور دستور، معاشرے کے اجتماعی مفاد اور نظم و نسق کو چیلنج کرتی رہتی ہے۔ قانون اور دستور پبلک یا عوام یا معاشرے کے اجتماعی مفاد کو تحفظ دینے کے لیے، نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے مرتب کیا جاتا ہے۔ انڈر ورلڈ کا باقاعدہ فنانشل سٹرکچر ہوتا ہے۔ اس میں بے شمار غیر قانونی ہتھکنڈے اور نت نئے قانون اور دستور سے متصادم طریقے زیر کار رہتے ہیں۔ ان میں نارکاٹکس، ڈرگ سمگلنگ، سرکاری اداروں سے کرپشن کے ذریعے بڑے سکیل پر مال ہتھیانہ بھی شامل ہے۔ ایک ترقی یافتہ معاشرے کے ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کے آفس میں یا ان کے آفس میں رکھے لیپ ٹاپ میں وہاں موجود ایک یا ایک سے زیادہ انڈر ورلڈ تنظیموں کا تازہ ترین تنظیمی ڈھانچہ بمع تصاویر کے یا دیوار پے آویزاں ہوتا ہے جس پر لیڈر کی تصویر ہوتی ہے، اسی طرح اس سے نیچے جتنے عہدے دار ہیں ان کی تصاویر چسپاں ہوتی ہیں، اس چاٹ کو یا ڈایا گرام کو اپ ڈیٹ رکھنا ہوتا ہے، مثلاً عہدے دار نیا آگیا تو اس کی تصویر لگتی ہے، ان تنظیموں کی کامیاب جاسوسی کرنے کے لیے کافی بجٹ خرچ ہوتا ہے۔ مثلاً ان کی گیدرنگز، شادی بیاہ یا فوتگی پر قانون نافذ کرنے والے کارندے موجود ہوتے ہیں اور ان کی تصاویر لیتے رہتے ہیں جس سے تنطیمی ڈھانچے میں کسی ممکنہ تبدیلی کی معلومات ملتی ہیں اور متعلقہ جرائم پیشہ تنظیم کا انفارمیشن ڈیٹابیس اپڈیٹ ہونا ہوتا ہے۔ قانون کے پاسدار ثبوت بھی ڈھونڈھ رہے ہوتے ہیں اس وقت کے لیے جب کبھی اس تنظیم کے کسی ایک یا ایک سے زیادہ عہدے داروں یا پیادوں کو عدالت میں پیش کیا جائے تو قانون شکنی کا ثبوت موجود ہو۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر ایک جرائم پیشہ تنظیم اگلے لیول کی ٹیکنالوجی استعمال کررہی ہے جو اس کے تنظیمی ڈھانچے اور سرگرمی کو روبوسٹ اور ناقبل گرفت بناتی ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی وہی ٹیکنالوجی یا اس سے اگلے لیول کی ٹیکنالوجی سیکھنی اور اڈابٹ کرنا پڑتی ہے تاکہ جرائم پیشہ تنظیم کے ایکٹیو اور روبوسٹ نیٹ ورک کو واچ کیا جاسکے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مستقل پریشر رہتا ہے کہ وہ پروگریس دکھائیں۔ انہوں نے کون سی جرائیم پیشہ تنظیم کو بریک کیا ہے یعنی انکی کیا پراگریس ہے، ان کی پراگریس دینے کی اپنی ڈیڈ لائینز ہوتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پریشر بڑھتا جاتا ہے چونکہ ان پر خرچ کیا گیا بجٹ، ان کی تنخواہیں کوئی وظیفہ نہیں سمجھی جاتی بلکہ اعلیٰ حکام پراگریس مانگتے ہیں جو خود جمہوری نمائندوں یعنی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس پریشر میں قانون نافذ کرنے والے ادارے رسکی کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے اہلکاروں سے یہ پوچھتے ہیں کہ آپ میں سے کون اہلکار والینٹیر ہوکر انڈر کور کی اسائمنٹ قبول کرتا ہے۔ جو اہلکار ایک انڈر کور ڈیوٹی قبول کرتا ہے اسے مشن کی کامیابی پر پروموشن کی آفر ہوتی ہے یا اسی طرح کا کوئی انعام اکرام آفر کیا جاتا ہے۔ انڈر کور اہلکار براہ راست اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ اپنی بیوی بچوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر انڈر ورلڈ تنظیم کے عہدے داروں یا فٹ سولجرز سے تعلقات استوار کرتا ہے۔ اور ان کے سامنے ایسا کام کر کے دکھاتا ہے کہ گویا وہ بھی انہی کی طرح ایک جرائم پیشہ آدمی ہے۔ شک ہونے کی صورت میں اسے اپنی جان سے اور اپنی فیملی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ انڈر کور جاب بہت خطرناک جاب ہوتی ہے، فٹ سولچرز سے ہوتے ہوئے عہدے داروں میں گھس جانا اور پھر ان کا اعتماد جیت جانا کوئی آسان بات نہیں ہوتی، موت ہر وقت انڈر کور ایجنٹ کے گرد منڈلاتی رہتی ہے، کبھی کبھار انڈر کور ایجنٹ جذباتی طور پر تنظیم میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ اسے اس انڈر ورلڈ تنظیم کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے یا اپنے حکام تک پہنچانے میں تردد ہونے لگتا ہے لیکن دوسری طرف اس کا جاب کیریئر، جاب پروموشن، انعام و اکرام رسک پر ہوتا ہے۔ انڈر ورلڈ تنظیموں میں چاہے کوئی فٹ سولجر ہو یا چھوٹا موٹا عہدے دار ہو سب کی زندگی رسک پر ہوتی ہے۔ اگر ایک تنظیم کا ایک عہدے دار دوسری تنظیم کے ہاتھوں مارا گیا تو بدلے میں اسی لیول کے عہدے دار کی قربانی مانگی جاتی ہے جو انڈر ورلڈ نسبتاً لمبا عرصہ سروائیو کرجائے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسی تنظیم سے سودے بازی بھی کرنے لگتے ہیں۔ یعنی باس کو بروقت کسی خطرے سے آگاہ کرنا اور بدلے میں کسی دوسرے کرائم نیٹ ورک کی انفارمیشن لینا یا کسی اور چیلنجنگ مجرم کے بارے میں ثبوت اکٹھا کرنا۔ چونکہ دونوں طرف پراگریس دینے کا مستقل پریشر رہتا ہے، چنانچہ بہت زیادہ فعال انڈر ورلڈ تنظیم اپنے کارندے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر انڈر کورز بھی بنالیتی ہے یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اپنے کارندے کو بھاری معاوضے کے عوض اپنا انڈر کور بنا لیتی ہے، ہم آپ سے عرض کریں کہ ہم ترقی یافتہ دنیا کی بات کررہے ہیں جہاں قانون اور انصاف کی حکمرانی مثالی ہے، ہم ایسی سوسائٹی یا معاشرے کی بات نہیں کررہے جہاں لا کمپرو مائیزڈ ہو، جہاں قانون شکنی کرنا سٹیٹس سنبل ہو بس ایک بات عرض کرنے کی جسارت کررہے ہیں کہ اگر سیاسی کلچر قانو ن شکنی کو کوئی مسلہ نہیں سمجھتا تو اسے ایک سپرئیر ادارے کی طرف سے لگام ہونی ہوتی ہے جو اس بات کا خاص خیال رکھے کہ کوئی گروہ یا پارٹی، جو سیاسی ہے یا غیر سیاسی ہے، انڈر ورلڈ سٹائل اپنانے سے باز رہے۔
یورپ سے سے مزید