• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
تحریر: اسرار راجہ… لوٹن
بلم بن عور ، قارون اور دیگر کی مثالیں اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ فرمان ربی ّ ہے کہ وہ علما جو دوسروں کا حق کھاتے ہیں ، دین کی غلط اور من گھڑت تشریح کرنے کا حکمرانوں سے معاوضہ لیتے ہیں ، برائیوں سے نہیں روکتے اور جابر اور ظالم حکمرانوں کا ساتھ دیتے ہیں ۔ اپنی علمیت، عقلیت اور روحانیت کا پرچار کرتے اور عوام کو دھوکہ دےکر لوٹتے ہیں اُن کی مثال گدھے جیسی ہے جس پر کتابوں کا بوجھ ہو اور اس کتے جیسی ہے جس کی فطرت میں ہانپنا ہے۔ ابنِ خلدون کے نظریے میں ان کی مثال اس بنجر زمین جیسی ہے جس پر نہ چشمے پھوٹتے ہیں ، نہ دریا بہتے ہیں ، نہ بارش کا پانی اثر کرتا ہے اور نہ ہی کوئی سایہ دار اور پھل دار درخت اگتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ عمرانیات کی سب سے معتبر اور مستند تاریخ قرآنِ حکیم ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے کہ ابتدائے آفر نیش سے ہی شیطان نے اولادِ آدم ؑ کو ورغلانے اور اُنھیں صراطِ مستقیم سے ہٹا کر دنیا میں شر و فساد پھیلانے کا عہد کیا اور قیام قیامت تک اللہ سے اس کی مہلت بھی مانگ لی ۔ آپ ؐ کی ولادت با سعادت سے پہلے ہر پیغمبری دور میں حق کا راستہ روکنے اور دُنیا میں شر و فساد پھیلانے والوں کی سعی جاری رہی مگر حق ہمیشہ غالب رہا۔ شیطانی قوتوں نے ایک اللہ بزرگ و برتر کے مقابلے میں اپنے اپنے مادی خُدا تراش لیے اور ان کی عبادت کرنے لگے ۔ نظریہ حق کے مقابلے میں کئی نظریے ، عقیدے اور ادیان پیش کئے مگر حق کا راستہ نہ روک سکے ۔ انسانی تاریخ تضادات کا مجموعہ ہے۔ تاریخ عالم میں کوئی بھی ایسا دور نہیں گزرا جو حقیقی معنوں میں پر امن ، پر آسائش اور ہر طرح کے تضادات و تفکرات سے مبرا ہو۔ انسان کسی بھی حالت میں اکیلا اور معاشرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا ۔ اسے زندہ رہنے کیلئے دیگر انسانوں سے جڑا رہنا ایک قدرتی امر ہے، اسی لیے کہا گیا ہے کہ جب آپ دو ہوں تو معاشرہ بن جاتا ہے اور دو لوگوں کا مل کر رہنا سیاست کی ابتداٗ ہے۔ دو انسانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک کو لیڈر یا قائد تسلیم کر لیں اور جو بھی اختلافات ہوں انہیں باہم گفت و شنید کے بعد قائد تسلیم کیے گئے فرد کی رائے کے مطابق درست تسلیم کیا جائے حدیث نبویﷺ ہے کہ سب سے بہتر زمانہ آپ ﷺ کا ہے اور پھر دوسرے درجے پر اصحاب رسولؐ اور پھر درجہ بدرجہ زمانہ تنزلی کی طرف مائل ہوتا رہے گا ۔ آخری زمانہ ہر لحاظ سے ابتری کا شکار ہو گا جس میں اخلاص و اقدار کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مفسرین کے مطابق جبر و ظلم کے دور میں بھی نظریہ حق کا پرچار کرنے والے افراد موجود ہوں گے جو علمی ، عقلی ، سیاسی ، نظریاتی اور فکری محاذوں پر جبر و ظلم ، فسطاعت ، فرعونیت اور شیطانیت کیخلاف حالت جنگ میں رہیں گے۔ موجودہ دور کے علما، فقہا اور اہلِ علم و قلم کا المیہ ہے کہ وہ علمی، عقلی ، سیاسی ، نظریاتی اور فکری محاذ پر شکست تسلیم کر چکے ہیں۔ مادی آسائشوں کے علاوہ شہرت و شہوت کی آلائشوں نے ہر سطح پر شکست خوردگی کی فضا قائم کر دی ہے جس سے نکلنا اب آسان نہیں رہا ۔ یوں تو عالمی سطح پر قیادت کا فقدان ہے اور خِطہ زمین پر بسنے والا ہر انسان بے یقینی کی کیفیت میں جی رہا ہے مگر نام نہاد عالم اسلام اور خاصکر نظریاتی اسلامی مملکت پاکستان ہر لحاظ سے شکست و ریخت کا شکار ہے ۔ پاکستان میں نظام مملکت چلانے والا کوئی بھی ادارہ مستحکم اور مضبوط نہیں رہا اور نہ ہی اِن اداروں میں ایک نظریاتی، فلاحی اور اسلامی ریاست کے نظام کو چلانے کی صلاحیت باقی رہی ہے جس طرح ریاست کے اندر کئی ریاستیں قائم ہو چکی ہیں ایسے ہی اداروں کے اندر بھی ایسے ادارے قائم ہیں جو اِن اداروں کی اہمیت کو بتدریج کم کرنے اور ملک میں مافیائی نظام کے قیام کی کوششوں میں تقریباً کامیاب ہو چکے ہیں، یہ سب ایک ایسی ریاست میں ہوا ہے جو نظریہ اسلام یعنی اخوت ، محبت، مساوات ، اسلامی بھائی چارے ، اخلاص ، اخلاق، عقیدت اور فضلیت کی بنیادوں پر قائم ہوئی تھی ۔ اقبال ؒ کا فلسفہ خودی اور نظریہ پاکستان ایک ہی سکے کے دو رُخ تھے جسے قائد اعظم ؒ کی رحلت کے بعد کھوٹا سکہ سمجھ کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ یہ کام اُن چار طبقات نے کیا جن کیخلاف بنگال سے لیکر کشمیر تک مسلمانوں نے عملی ، علمی ، قلمی ، سیاسی ، سماجی اور نظریاتی محاذوں پر جنگ لڑی تھی۔ انگریزی تسلط قائم کرنے میں بنگال کے نوابوں ، بڑے جاگیر داروں اور اعلیٰ اشرافیہ کے نمائندوں نے میر جعفر اور گھسیٹی بیگم کا ساتھ دیا اور جب ناؤ ڈوبتی دیکھی تو غلطی اور ندامت کا احساس تو ہوا مگر تب تک میر جعفر ، میر قاسم اور گھسیٹی بیگم کا دور ختم ہو چکا تھا۔ پاکستانی سیاستدانوں ، اشرافیہ، علما و فقہا نے دو قومی نظریے اور قائد کی جدوجہد کے خلاف محاذ آرائی کا سلسلہ آزادی کے فوراً بعد شروع کر دیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے،پاکستان کی تاریخ اتنی گنجلک ہے کہ اسے بیان کرنا اور سیدھی راہ تلاش کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔
یورپ سے سے مزید