1990 ءکی دہائی میں پاکستان جنوبی ایشیا کا امیر ترین ملک تھا۔ آج ہم علاقے کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہیں۔ 1995ءمیں پاکستان اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے انڈیکس میں انڈیا سے چھ درجے اور بنگلہ دیش سے 18درجے آگے تھا۔ اسی انڈیکس کے حوالے سے آج ہم انڈیا سے 29درجے پیچھے ہیں اور بنگلہ دیش سے 32درجے پیچھے گر چکے ہیں۔ کیا واقعی ہمارے طرز حکمرانی میں اسقدر بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ اس نے بالکل کام کرنا چھوڑ دیا ہے؟ ہمارے صوبوں کی چار بڑی ذمہ دار یاں ہیں:صحت، تعلیم، پولیس اور چند ایک دوسری شہری ذمہ داریاں مثلاً پانی کی فراہمی، علاقے کی صفائی اور سڑکوں کا بنانا اور انکی دیکھ بھال وغیرہ۔ عوام حکومت سے ان اہم خدمات کی مناسب فراہمی کی توقع رکھتے ہیں۔ آیئے صحت سے بات شروع کرتے ہیں۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، اس اشاریے میں لیسوتھو اور جنوبی سوڈان کے علاوہ افریقہ کے باقی تمام ممالک میں صورتحال پاکستان سے بہتر ہے۔ ہمارے 40فیصد بچے مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور رہ جاتے ہیں۔ ہمارے 17 فیصد بچوں اور 42 فیصد خواتین میں انیمیا یعنی فولاد کی کمیابی کی وجہ سے خون کی کمی ہے۔ تعلیمی میدان میں ہمیں ان دو حقائق سے آغاز کرنا چاہئے:ہمارے دس سال کے 78فیصد بچے کسی بھی زبان میں دو جملے نہیں پڑھ سکتے، اور 26ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ تعلیمی معیار کا یہ حال ہے کہ 2023ءکے AESR سروے کے مطابق، پانچویں جماعت میں زیر تعلیم بچوں میں سے صرف 45فیصد بچے دوسری جماعت کی ریاضی کے سوال حل کرسکتے ہیں اور سندھ اور بلوچستان میں یہ شرح 30فیصد سے بھی کم ہے۔ پولیس پر بات کرنی نسبتا آسان ہے۔ اگر ایک سادہ سوال کیا جائے کہ کیا زیادہ تر پاکستانی پولیس کو نعمت سمجھتے ہیں یا زحمت؟ تو ہمارے خیال میں قارئین اسکا جواب بخوبی جانتے ہیں کہ یہ پولیس سروس ان کی زندگی میں کتنی مفید ہے۔ آخر میں، آئیے شہری خدمات پر بات کرتے ہیں۔ ہمارے سب سے بڑے شہر کراچی کے بیشتر حصے میں پائپ سے پانی نہیں آتا اور صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ پانی لوگوں کو ٹینکرز کے ذریعے بیچا جاتا ہے تاکہ مافیا پیسہ کما سکیں۔ ہر سال کئی ہفتوں تک ہمارے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ایسی ہوا نہیں ہوتی کہ جس میں انسان سانس لے سکیں۔ شہری علاقوں میں کچرا ہٹانے کا نظام انتہائی ناقص ہے اور سوائے مراعات یافتہ شہری علاقوں کے یہ نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان بھر میں سیوریج کے نالے کھلے پڑے ہونا ایک عام بات ہے۔ پنجاب میں موٹر ویز کے علاوہ کہ جن کی دیکھ بھال بھی وفاقی حکومت کرتی ہے یا ان چند سڑکوں کے علاوہ کہ جو VIPs کے زیر استعمال ہیں، پاکستان میں اوسط سڑک کی صورتحال کافی خستہ ہے۔ تو یہ بالکل واضح ہے کہ ہمارے صوبوں کی ان چاروں اہم شعبوں میں کارکردگی انتہائی ناقص ہے ۔ یاد رہے کہ صوبوں کی طرف سے ہمیں فراہم کی جانیوالی ان ’’سروسز‘‘ کیلئے پاکستانی ٹیکس دہندگان صوبوں کو سالانہ 12,000ارب روپے ادا کرتے ہیں۔ اوسطاہر پاکستانی صوبائی حکومتوں کو سالانہ 50ہزارروپے ادا کرتا ہے۔حکومتی شاہ خرچیوں اور ان جیسے دوسرے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے ہم نے اپنے عوام پر دنیا کے بلند ترین سطح کے انکم اور سیلز ٹیکس لگا رکھے ہیں۔ ہم اپنے تنخواہ دار طبقے (بشمول اساتذہ) پر 38.5فیصد، اپنے کاروباری افراد (بشمول ڈاکٹروں) پر 49.5فیصد، اور کمپنیوں (بشمول برآمد کنندگان) پر 59فیصد ٹیکس لگاتے ہیں۔ اور انکم ٹیکس ادا کرنے کے بعد جو کچھ غریب شہریوں کے پاس رہ جاتا ہے، اس میں سے حکومت کا سیلز ٹیکس تقریباً ہر وہ چیز جو ہم خریدتے ہیں، بشمول بچوں کے دودھ اور طبی آلات کو 18 فیصد زیادہ مہنگا کر دیتا ہے۔
صوبوں کی ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ وفاقی حکومت کسی بھی حوالے سے بہتر طریقے سے چل رہی ہے۔ یہ کتنی اچھی طرح کام کرتی ہے اسکا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے جنوبی ایشیائی خطے بلکہ عالمی سطح پر اسی طرح کی آمدنی والے ممالک جیسے کہ جنوبی افریقہ، ویتنام، انڈونیشیا اور ملائشیا میں سب سے مہنگی بجلی اور گیس فراہم کرتے ہیں۔ آج کراچی، لاہور اور اسلام آباد آنیوالی تمام غیر ملکی ایئرلائنز کی کل تعداد صرف ڈھاکہ ایئرپورٹ پر آنیوالی غیر ملکی ایئرلائنز سے کم ہے۔ 2022ءمیں ہماری پرچم بردار پی آئی اے کو 88ارب روپے کا نقصان ہوا اور اُس سال 4.5 ملین مسافروں نے پی آئی اے میں سفر کیا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ٹیکس دہندگان یعنی ہم، پی آئی اے پر ہر سفر کرنیوالے مسافر کیلئے 19,500 روپے پی آئی اے کو ادا کرتے ہیں۔ پی آئی اے کے خسارے میں اسی طرح مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری ریلوے اس سال 2.9کروڑ سے کم مسافروں کے کام آئیگی لیکن اسے 109ارب روپے کی سبسڈی دی جائیگی۔ یعنی ایک بار پھر ہر مسافر کے سفر کیلئے 3700 روپے کی سبسڈی ہم ٹیکس دہندگان فی کس کے حساب سے ادا کریں گے۔ ہماری سرکاری کمپنیاں اس سال 750ارب روپے سے زائد کا نقصان اٹھائیں گی۔آپ کی محنت سے کمائی گئی اور بلند سطح پر ٹیکس کی ادائیگی بعد اکٹھی کی گئی رقم سے یہ نقصان پورا کیا جائے گا۔ اتنے بڑے اور مستقل خسارے کے باوجود ہماری حکومت کوئی بھی اصلاحات کرنے سے قاصر ہے۔ہم نےپورے عرصے میں صرف اپنی حکومتوں کو مزید بڑا ہوتے اور پہلے سے زیادہ مقروض ہوتے دیکھا ہے۔ ہمارا طرز حکومت ایک ایسے نظام میں انحطاط پذیر ہو چکا ہے جو اجلاس، کمیٹیاں، ایس آر او اور آرڈیننس تو بنا سکتا ہے لیکن عوام کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اپنے آپ سے پوچھیں: وفاقی یا صوبائی حکومتیں آج آپ کو کیا سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ اگر ہم اس نوآبادیاتی، اشرافیہ کے زیر قبضہ اور ریاستی نظام کو ختم کر کے انفرادی آزادی، سماجی انصاف اور چھوٹی حکومت پر مبنی ماڈل اپنا لیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم چند سالوں میں دوبارہ اپنے جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کو پیچھے چھوڑ دیں۔ ہمیں کیا اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے؟ تعلیم، پانی اور سیوریج وغیرہ کو ضلع کی سطح پر منتقل کریں، اور سڑکوں، پولیس اور صحت کو ڈویژن کی سطح پر منتقل کریں۔ وفاقی حکومت کو فنڈز براہ راست ڈویژنز اور اضلاع کو منتقل کرنے چاہئیں۔ صوبائی سطح پر دس وزارتیں اور وفاقی سطح پر 15وزارتوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیں۔ تمام سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں کو بھی نجی شعبے کے حوالے کر دینا چاہئے۔ حکومتی ضوابط کو کم کریں اور طریقہ کار کو آسان بنائیں۔ آمدنی اور سیلز ٹیکس کو کم کریں۔ بجلی اور گیس کے نرخ کم کریں۔ باقی سرکاری اسکولوں کو چلانے کیلئے بورڈ بنائیں اور والدین کو بتائیں کہ وہ کیسے چلائے جاتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام غریب بچوں کو اسکول میں مفت کھانا ملے۔ اور ملک کے بہترین پرائیویٹ سکولوں میں ذہین ترین غریب بچوں کا پورا خرچہ اُٹھایا جائے۔ ہمیں حکومت کے سائز کو کافی حد تک کم کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم بلوچستان حکومت کے اخراجات کو 900 ارب روپے سے کم کر کے نصف کر دیں تو ہم بلوچستان کے 25لاکھ خاندانوں میں سے ہر ایک کو 15ہزار روپے ماہانہ دے سکتے ہیں۔ اس سے صوبے کا معاشی، تعلیمی اور سیاسی منظر نامہ بدل جائے گا اور وہاں کی شورش ایک دو سالوں میں دم توڑ دے گی۔
(ڈاکٹر مفتاح اسماعیل عوام پاکستان پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور ڈاکٹر ظفر مرزا مرکزی ترجمان ہیں)۔