(گزشتہ سے پیوستہ )
میں حضرت شاہ کے پاس بریڈ فورڈ گیا تو وہ مجھے اپنے ساتھ اسپین لے گیا وہاں پہنچ کر یاد آیا کہ میرے پاس تو اسپین کا ویزا ہی نہیں اور ان دنوں یاسر عرفات اسپین کے دورے پر آ رہے تھے اور سیکورٹی کے انتظامات بہت کڑے تھے میرا پاسپورٹ چیک کیا گیا تو وہاں ویزا نظر نہ آنے پر آفیسر نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہا کہ تمہارے پاس ویزا نہیں تم واپس جائو میں نے کوشش کرکے اس سے بھی زیادہ غلط انگریزی میں انٹ شنٹ جواب دیا وہ سمجھا کہ یہ شخص کوئی بہت بڑا انگریزی دان ہے ا بھی یوکے سے آرہا ہے اوپر سے ڈریس بھی ٹورسٹ والی نہیں شکل وصورت سے بھی جنٹلمین لگتا ہے یہ سوچ کر اس نے اپنے سے بڑے آفیسر کو بلایا جو اس کے نزدیک انگریزی اور چہرہ شناسی میں یکتائے روزگار تھا اس نے مجھ سے کچھ سوال کئے اس کی انگریزی اپنے جونیئر سے بھی گئی گزری تھی میں نے اس سے بھی گئی گزری انگریزی میں جواب دیئے جس سے وہ پوری طرح مطمئن ہو گیا کہ سمجھ نہ آسکنے کی وجہ سے اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اس نے بہت احترام سے مجھ سے میرا پاسپورٹ واپس لیا اور اس پر ’’انٹری‘‘ کا ٹھپا لگا کر کہا ویلکم ٹو اسپین۔ اسی طرح کا واقعہ سوئٹزر لینڈ میں بغیر ویزے کے داخلے کے وقت پیش آیا تھا میں اپنے میزبان ناصر شیخ کے ہمراہ ملکوں ملکوں کی سیر کو نکلا ہوا تھا ۔سوئٹزر لینڈ میں ویزے کی عدم موجودگی پر اعتراض ہوا جس پر ناصر نے گاڑی کی ڈگی کھولی جس میں اتفاق سے میری کچھ تصنیفات پڑی تھیں اس نے افسر کو وہ دکھائیں اور میری ’’عالمی شہرت‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ کمال ہے آپ ایسا پڑھا لکھا شخص بھی اِنہیں نہیں جانتا آپ کے ملک کے دورے پر صرف اس لئے خصوصی طور پر آئے ہیں کہ واپسی پر انٹرویو کے دوران عالمی پریس کو آپ کے عظیم ملک کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ یہ سن کر اس اللہ لوک افسر نے فٹافٹ ویزا لگایا اور بہت لجاجت سے میرے ساتھ تصویر بنانے کی فرمائش کر دی ۔تاہم واضح رہے کہ یہ میں ان دنوں کی بات کر رہا ہوں جب پاکستان کی شہرت اتنی بری نہیں تھی اور دوسرے یہ معصوم لوگ ہم لوگوں کے اس کمال سے واقف نہیں تھے کہ ہم میں سے کچھ لوگ ان ملکوں کی شہرت لیتے وقت اپنے پاکیزہ رشتوں کو بھی ناپاک بنا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اب تو آپ کے پاس تمام سفری کاغذات پورے بھی ہوں تو آپ کی تلاشی لیتے وقت آپ کے جسم پر صرف انڈر ویئر رہنے دیتے ہیں ۔مجھے 1970ء کا وہ وقت بھی یاد ہے جب میں امریکہ کا ویزا لینے کے لئے ان کے لاہور سنٹر گیا تو ویزا افسر نے مجھ سے ایک سوال بھی پوچھے بغیر مجھ سے پاسپورٹ مانگا اوروہ اسٹیمپ لگانے ہی کو تھا کہ عملے کے ایک پاکستانی کارکن نے اسے روک کر کہاسر یہ وہ شخص ہے جس نے ایف سی کالج لاہور کے فلاں پرنسپل کے بارے میں کالم لکھا تھا کہ یہ امریکی ایجنٹ ہے اور حکومت نے تحقیقات کے بعد اسے ملک بدر کر دیا ہے ۔ویزا افسر نے اس کی بات پورے غو رسے سنی اور پھر پاسپورٹ پر ٹھاہ کرکے انٹری کی مہر لگا دی اس حوالے سے مجھے اپنا بہت پیارا کرسچن دوست گلزار وفا چودھری یاد آ رہا ہے ان دنوں وہ ایف سی کالج میںلیکچرر تھا اور کالج کے احاطے میں اساتذہ کیلئے بنائی گئی کوٹھیوں میں رہتا تھا۔ میں تقریباً روزانہ اس کی طرف جاتا تھا میرے کالم کے بعد اسے حکم موصول ہوا کہ اگر یہ شخص آئندہ کالج کے احاطے میں داخل ہوا تو تم نہ اس گھر میں رہو گے اور نہ یہاں لیکچر رہو گے۔ گلزار نے مجھے یہ بات بتائی تو میں نے اسے کہا یار میں تمہاری نوکری اور رہائش کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا، چنانچہ میں آئندہ تمہاری طرف نہیں آئوں گا۔ یہ سن کر اس نے بہت غصے کی نظروں سے میری طرف دیکھا اورکہا’’ اگر تم نے ایسا کیا تو میں خود بھی تمہاری شکل دیکھنا گوارا نہیں کروں گا‘‘۔اب اگر گلزار کا ذکر چھڑا ہے تو اس سرپھرے کا ایک اور واقعہ بھی سناتا چلوں۔ میاں نواز شریف کی ماڈل ٹائون والی کوٹھی کے سامنے کرسچن بستی تھی اس علاقے کو انتہائی پس ماندہ لوگوں نے SLUMS (سلمز) بنا دیا تھا اور ادھر سے گزرنا مشکل ہوگیا تھا حکومت نے وہ جھونپڑیاں ختم کرکے فیروز پور روڈ پر یوحنا آباد بنانے کا پلان بنایا جہاں یہاں کے مکینوں کو آباد کیا جانا تھا۔ تنظیموں نے وہاں احتجاجی کیمپ لگا دیئے پروفیسر گلزار وفا چودھری صاحب بھی وہاں کیمپ لگا کر بیٹھ گئے۔ پولیس نے ایکشن لیا تو سب وہاں سے بھاگ بھوگ گئے۔ اکیلا گلزار وفا چودھری وہاں بیٹھا رہا۔ حالانکہ وہ ان دونوں دیال سنگھ کالج سے وابستہ تھا اور یوں اس کی نوکری سرکاری تھی، اسے گرفتار کرلیا گیا اور لاہور سے اس کی ٹرانسفر غالباً لیہ کردی گئی، بچے لاہور میں تھے اور وہ وہاں اکیلا تھا، چنانچہ دو ایک ہفتوں میں اسے لاہور سے لیہ اور لیہ سےلاہور کے ’’روٹ‘‘ پر چلنا پڑتا تھا۔ ایک دن میں نے اسے کہا یار میں کسی سے کہہ کہا کر تمہیں واپس لاہورٹرانسفر کرا دیتا ہوں اس سے اچھی بات اور کیاہوگی، میں نے مذاق سے کہا کہ تم ایسے خطرناک شخص کے حوالےسے اگر یہ گارنٹی مانگی گئی کہ وہ سرکاری ملازمت کے دوران ایسی حرکت دوبارہ نہیں کرے گا تو میں کیا جواب دوںجس پر وہ برجستہ بولا کہ اگر آئندہ بھی کوئی ایسا موقع آیا تو وہی کروں گاجو پہلے کیا تھا، بہرحال میں اسے واپس لاہور لانے میں کامیاب ہوہی گیا۔ واضح رہے گلزار وفا چودھری کا قد چار فٹ دو انچ تھا۔ پنگا تو وہ سب سے لیتا تھا لیکن غیر معمولی قد کاٹھ والے دوستوں کو دیکھ کر اس کی رگِ شرارت ضرور پھڑکتی تھی۔ ایک دن ندیم صاحب کے دفتر میں غلام محمد قاصر جس کا شعر ہے:
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
کھڑکی کی طر ف بیٹھا تھا جدھر سے جھلسا دینے والی دھوپ آ رہی تھی۔ وہ جھنجلا کر اٹھا تو اپنے دراز قد کی وجہ سے اٹھتا ہی چلا گیا۔ قریب بیٹھے گلزار نے اسے مخاطب کیا اور کہا ’’قاصر صاحب صرف کھڑکی بند کرنا، سورج کو کچھ نہ کہنا۔
گلزار کا تعلق ایک کاشتکار گھرانے سے تھا۔ بس آخر میں اس کے دو پنجابی شعر سن لیں۔
جتھے اکھر اکھاں کھولن ڈریاں ڈریاں
اوتھے میتھوں کاغذ منگن گلاں کھریاں کھریاں
(ترجمہ) جہاں الفاظ سہمے سہمے سے نظر آتے ہیں وہاں کاغذ مجھ سے توقع کرتے ہیں کہ میں کھری کھری باتیں کروں۔
آسے پاسے گجن بدل کالے کالے
تے وچ خیالاں نچن فصلاں ہریاں ہریاں
(ترجمہ) کالے کالے بادلوں کے گرجنے کی آواز آ رہی ہے اور آنکھوں میں ہری بھری فصلیں ناچنا شروع ہوگئی ہیں۔ (جاری ہے)