مسئلۂ فلسطین بنیادی طور پر ایک سیاسی اور جغرافیائی تنازع تھا، جو وقت کیساتھ مسلمانوں کیلئے ایک مذہبی اور جذباتی وابستگی کی بنیاد بن چکا ہے۔ اس تناظر میں، مذہبی قیادت نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اس مسئلے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے اسے ایک خاص زاویے سے پیش کرنے کا رجحان پیدا کیا۔ اس بیانیے نے سیاسی تنازعات کو مذہبی تناظر میں ڈھال دیا، جسکے نتیجے میں مسلم دنیا کو خوں ریزی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔مذہبی قیادت نے فلسطینی تنازع کو ہمیشہ ایک مقدس جدوجہد کے طور پر پیش کیا ہے، جہاں یروشلم اور مسجد اقصیٰ کی مذہبی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے عوامی حمایت حاصل کی گئی۔ حضرت عمرؓ کے تاریخی معاہدے اور اسلامی تاریخ کے دیگر حوالوں کو استعمال کرتے ہوئے مسئلے کو ایک مذہبی فرض کے طور پر پیش کیا گیا، جس نے عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس بیانیے کا سب سے اہم منفی پہلو یہ رہا ہے کہ اس نے تنازع کی دیگر اہم جہتوں، جیسے انسانی حقوق اور سماجی انصاف کو نظرانداز کردیا۔ خالصتاً مذہبی بیانیے نے اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے بیانیے میں ڈھالنے کی سیاسی قیادت کی کوششوں کو ہر مرحلے پر نقصان پہنچایا۔ معروف مورخ برنارڈ لیوس کے مطابق، سیاسی تنازعات کو مذہبی دائرۂ کار میں محدود کر دینے سے یہ تنازع ایک عالمی انسانی مسئلے کے بجائے علاقائی مذہبی تصادم کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ مزید برآں، مذہبی بیانیہ ہیومن ازم کے پس منظر میں وجود پذیر ہونیوالی مغربی تہذیب کی کسی حمایت سے یکسر محرومی ہے۔ اسی سلسلے میں کیرن آرمسٹرانگ کا موقف بھی ایک گہرے نفسیاتی اور سماجی زاویے کو پیش کرتا ہے، جہاں وہ مذہب کو تنازعات کے پس منظر میں دیکھتی ہیں۔ انکے مطابق، جب کوئی تنازع مذہبی حیثیت اختیار کر لیتا ہے تو یہ مسئلے کو غیر معمولی شدت اور پیچیدگی عطا کرتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی تنازعات میں دونوں فریق اپنے موقف کو ’’حق و باطل‘‘ کی جنگ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ سوچ سمجھوتے اور مصالحت کی گنجایش کو ختم کر دیتی ہے اور تنازعات کو طول دینے کے ساتھ مزید خراب کر دیتی ہے۔ ارض فلسطین کے تاریخی پس منظر کو دیکھتے ہوئے، یہ بات واضح ہے کہ اس زمین سے مسلمانوں کے تعلق کی طرح یہود کا تعلق بھی نہایت قدیم اور گہرا ہے۔ تاہم، اسرائیل کا قیام کسی مذہبی فتح کا نتیجہ نہیں، بلکہ عالمی فاتحین کے فیصلوں کا نتیجہ تھا۔ غور کیا جائے تو دنیا کے بیش تر ممالک کی سرحدیں انصاف یا تاریخ کے اصولوں پر نہیں، بلکہ سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر طے کی گئی ہیں۔ ارض فلسطین میں یہود کو آباد کرنے کا فیصلہ بھی ان عالمی قوتوں نے کیا، جو اس خطے پر حکمران تھیں۔ اس فیصلے کو عالمی برادری نے قبول کیا اور یوں یہ معاملہ سیاسی حقیقت بن گیا۔فلسطینی قیادت کا دوسرا اہم مسئلہ یہ رہا ہے کہ انہوں نے عالمی طاقتوں کے ساتھ غیرحقیقت پسندانہ اور مثالی بنیادوں پر توقعات وابستہ کر لیں۔ مذہبی قیادت اور فلسطینی رہنماؤں نے انصاف، اخلاقیات اور تاریخی حقوق کی بنیاد پر اپنے موقف کو پیش کیا، جو اصولی طور پر درست ہونے کے باوجود بین الاقوامی سیاست کی حقیقتوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر 1948ء کی جنگ کے بعد اسرائیل نے مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل کی، جنہوں نے اسے ایک اسٹرٹیجک اتحادی کے طور پر دیکھا۔ اگر فلسطینی قیادت عالمی طاقتوں کی متنوع حمایت کو بہتر طریقے سے منظم کرتی تو یہ ممکن تھا کہ وہ اپنے حقوق کیلئے ایک مضبوط اور موثر سفارتی محاذ بنا سکتی۔ 1948ء، 1967ء اور 1973ء کی جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست نے یہ واضح کر دیا تھا کہ موجودہ مزاحمتی حکمت عملیوں کے ذریعے سے طاقت کے توازن کو بدلنا ممکن نہیں۔ اسکے باوجود، فلسطینی مذہبی قیادت نے مسلح جدوجہد کو اپنی بنیادی حکمت عملی کے طور پر برقرار رکھا، حالاں کہ زمینی حقائق مسلسل یہ دکھا رہے تھے کہ طاقت کا توازن ہمیشہ اسرائیل کے حق میں رہا ہے۔ اس مزاحمت نے نہ صرف فلسطینی عوام کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا، بلکہ اسرائیل کو اپنے اقدامات کا جواز فراہم کرنے کا موقع بھی دیا۔اسی دوران میں اسرائیل نے سائنسی ترقی میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ فلسطینی مذہبی قیادت نے طویل عرصے تک یہ خواب دیکھا کہ اگر تمام مسلم ممالک متحد ہو جائیں تو وہ اسرائیل کا خاتمہ کر سکتے ہیں جیسے ماضی میں مسلمانوں نے کئی اقوام کو شکست دی، لیکن زمینی حقائق اسکے بالکل برعکس ہیں۔ مسلم دنیا نہ صرف عالمی سیاست میں کم زور ہے، بلکہ اقتصادی، سائنسی اور عسکری شعبوں میں بھی مغربی دنیا اور اسرائیل کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہے۔ اس خواب کی بنیاد پر عمل کرنا نہ صرف غیرحقیقت پسندانہ ثابت ہوا، بلکہ اس نے مسلمانوں کو انکی موجودہ حیثیت اور حقیقی مسائل کو سمجھنے سے بھی محروم رکھا۔ آج اسرائیل کی فی کس جی ڈی پی کئی مسلم ممالک سے زیادہ ہے اور اسکی معیشت بڑی عالمی طاقتوں کیساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے۔ دوسری جانب مسلم دنیا مجموعی طور پر عالمی معیشت میں محدود کردار ادا کرتی ہے اور بڑی طاقتوں پر انحصار کرتی ہے، جو اسرائیل کی حمایت میں اپنا موقف مضبوطی سے برقرار رکھتی ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے مذہبی قیادت نے عوام میں یہ تاثر قائم رکھا کہ مسلح جدوجہد ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے، حالاں کہ موجودہ حالات میں فلسطینی کاز کی کامیابی کیلئے طاقت کے عالمی توازن کو تسلیم کرنا اور سائنسی و معاشی ترقی کے ذریعے سے اپنے وسائل کو مضبوط بنانا زیادہ ضروری تھا۔ہمارے نزدیک مسئلۂ فلسطین کا المیہ صرف زمین اور اقتدار کی جنگ نہیں، بلکہ نسلوں کی بقا اور اسکے خوابوں کی تباہی کی کہانی ہے۔ اسرائیل کے تمام توسیع پسندانہ اقدامات کو فلسطینی قیادت نے خود اپنی غیر حقیقت پسندانہ حکمت عملیوں کے ذریعے سے ایک عالمی جواز فراہم کیا۔ حماس کے حالیہ اقدامات نے اس صورت حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔اب شاید دو ریاستی حل کا خواب بھی اپنی معنویت کھو چکا ہے اور امن کے امکانات ایک یک ریاستی حل میں سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ جذباتی نعروں اور غیر حقیقت پسندانہ خوابوں کو ترک کر کے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی جائے، جو فلسطینی عوام کی بقا، عزت اور مستقبل کو محفوظ کر سکے۔