• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکیہ اسی کی دہائی، جب دنیا میں دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں لوگوں کوزیادہ آگاہی حاصل نہ تھی ، سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے سرغنہ عبداللہ اوجالان نے 1984ء میں شام انتظامیہ کی حمایت سے جنوب مشرقی ترکیہ میںدہشت گرد کارروائیوں کا آغازکیا۔ PKK کی دہشت گردی کی وجہ سے 80 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھےہیں۔ دہشت گرد تنظیمPKK کا اصل مقصد جنوب مشرقی ترکیہ میں ایک آزاد کرد ریاست کا قیام تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شام اپنے ملک میں آباد کرد آبادی سے غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے ان کی شناخت تک ختم کرنے کی کوشش کرتا رہا ،تاہم اسکے خفیہ ادارے نے سوویت یونین کی پشت پناہی سے اس دہشت گرد تنظیم کے سرغنہ عبداللہ اوجالان کو دمشق میںرہنےاور بعد ازاں وادیِ بقا میں دہشت گردی کے کیمپ قائم کرنےکی بھی اجازت دےدی ۔ 1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل نے شام میں PKK کی موجودگی کیلئے مسائل کھڑے کردیئے۔ ترکیہ نے موقع سے استفادہ کرتے ہوئےشام کو جنگ کی دھمکی دے ڈالی ۔ اس موقع پر اس وقت کے صدر سیلمان دیمرل نےیکم اکتوبر 1998ء کو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ہشت گرد عبداللہ اوجالان کی شام میں موجودگی پر شام کیخلاف جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھنےاور صبر کا پیمانہ لبریز ہونیکا عندیہ دیا اور ترکیہ نے پہلی بار بڑی تعداد میں اپنے فوجی دستے شام کی سرحدوں پر لاکھڑے کیے ۔ جس پر اُس وقت کےمصر کے صدر حسنی مبارک نے 6 اکتوبر کو ترکیہ کا دورہ کیا اور عبداللہ اوجالان کو شام سے نکلنے کی شرط پر ثالثی کروانےمیں کامیابی حاصل کی ۔ عبداللہ اوجالان 2 فروری 1999ء کو قبرصی یونانی انتظامیہ کے جعلی پاسپورٹ پر یونانی خفیہ سروس کی نگرانی میں کینیا کے دارالحکومت نیروبی پہنچا اور یونان کے سفارتخانے میں قیام کیا جس پر کینیا کی حکومت نے اوجالان کو 15فروری تک کینیا چھوڑنےکا حکم جاری کردیا۔ ترکیہ کی خفیہ سروس نے اوجالان کے نیروبی ائیر پورٹ سے ہالینڈجانے کی اطلاع ملنے پر بڑی خاموشی سے آپریشن کرتے ہوئے اس کو وہیں سےگرفتار کر کے ایک پرائیویٹ طیارے میں بٹھاکرترکیہ پہنچادیا۔ عبداللہ اوجالان کی گرفتاری کے نتیجے میں 28مئی 1999ء کے عام انتخابات میں بلنت ایجوت کی ڈیموکریٹک پارٹی کو طویل عرصے بعدپہلی پوزیشن حاصل ہوئی اور وہ 2002ء تک ملک کے وزیر اعظم رہے۔ 29جون 1999ءکو عبداللہ اوجالان پر ملک سے بغاوت اور ملک کو توڑنے کےجرم میںمقدمہ چلایا گیا اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا گیا اور انکی سزا کوعمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی (آق پارٹی )کو جنوب مشرقی اناطولیہ کے علاقے سے بڑی تعداد میں کردوں کے ووٹ حاصل ہوئے اور ترکیہ میں طویل عرصے بعد آق پارٹی کلی اکثریت حاصل کرتے ہوئے تنہا حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ اس دور میں آق پارٹی نے ملک میں کردی زبان میں اخبارات، جرائد اور گانوں پر عائد پابندی کو ہٹا کر کردوں کے دل جیت لیے جسکےبعد 2009ء میں دہشت گردی پر قابو پانے کیلئےاس وقت پارلیمنٹ میں کردوں کی نمائندگی کرنے والی جماعت HDP کیساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا لیکنPKK ، کی جانب سےبڑے پیمانے پر 2015ء میں کیے جانیالے حملوں کی وجہ سے امن مذاکرات کا یہ سلسلہ ختم ہو کر رہ گیا۔ 2015ءکے بعد اب ایک بار پھر امن مذاکرات کا شروع کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب صدر ایردوان کے’’جمہور اتحاد‘‘میں شامل نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے چیئرمین دولت باہچےلی ، جو ہمیشہ PKK، کےسرغنہ عبداللہ اوجالان اوراس تنظیم کی پشت پناہی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے سخت مخالف رہے ہیں ، نے پہلی بار غیر متوقع اور حیران کن طور پر 22اکتوبر 2024ءکو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے PKK، کے سرغنہ عبداللہ اوجالان PKK اور اسکی ذیلی شا خوں کو کالعدمقرار دینے کی شرط پر پارلیمنٹ میں خطاب کرنے کا حق دیے جانے کا اعلان کیا اور اس طرح انہوں نے طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اپنی کوششوںکا باقاعدہ آغاز کردیا ۔ اس سلسلے میں کردوں کی موجودہ سیاسی جماعت DEM کے تین ارکان نے جیل میں PKK کےسرغنہ عبداللہ اوجالان سے ملاقات کرنے کے علاوہ اسی پارٹی کے دیگر رہنمائوں کیساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی الگ الگ ملاقات کی اورتمام ہی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس طرح ترکیہ میں PKKکےہتھیار ڈالنےکیلئے ہر ممکنہ تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانیاں بھی کروائیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے صدر رجب طیب ایردوان نے کرد باشندوں کی اکثریت والے شہروںدیار باقر اور شانلی عرفہ میں عوام سے خطاب کرتے ہوئےمکمل طور پر دہشت گردی کے خاتمے کی امید ظاہر کی ہے۔ صدر ایردوان نے کہاکہ ابPKK ، وائی پی جی اور پی وائی ڈی کے ہتھیار ڈالنے اور اپنے آپ کو کالعدم قراردینے سے ترکیہ بھر میں کردوں اور ترکوں کے امن کیساتھ زندگی بسر کرنے کے دور کا آغاز ہونے ہی والا ہے تاہم انہوں نے ان دہشت گرد تنظیموں کے استعماری قوتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے سے متعلق انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ ان تنظیموں کے ہتھیارنہ ڈالنے کی صورت میں انکو ہتھیاروں سمیت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کردیا جائیگا۔ MHPکے چیئرمین ڈیولٹ باہیلی کی PKK کے رہنما عبداللہ اوجالان سے 22اکتوبر کو’’ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی میں ڈی ای ایم پارٹی گروپ میٹنگ میں بولنے کے حق کیلئے درخواست دینے‘‘ کی اس شرط پر کہ وہ تنظیم کو ختم کر دیں، کا بہت بڑا اثر پڑا۔

تازہ ترین