• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارہ شریف قتل سے متعلق فیملی کورٹ کے ججوں کو نام کے افشا سے متوقع خطرات پر تشویش

لندن (پی اے) سارہ شریف قتل سے متعلق فیملی کورٹ کےججوں کو نام کے افشا سے متوقع خطرات پر تشویش لاحق ہے ، اپیل کورٹ کو گزشتہ روزبتایا گیا کہ سارہ شریف کے قتل سے قبل ان کی دیکھ بھال سے متعلق کارروائی کی نگرانی کرنے والے ججوں کو اب نام ظاہر ہونے کےمتوقع خطرات پرشدید تشویش ہے۔ دسمبر میں جسٹس ولیمز نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ میڈیا 10 سالہ سارہ سے متعلق فیملی کورٹ کے تاریخی مقدمات کی نگرانی کرنے والے 3 ججوں کے ساتھ ساتھ سماجی کارکنوں اور سرپرستوں سمیت دیگر افراد کی شناخت ظاہر نہیں کر سکتا کیونکہ انہیں ورچوئل لنچ ہجوم سے نقصان پہنچنے کا حقیقی خطرہ ہے۔جسٹس ولیمز نے یہ بھی کہا کہ یہ دلیل دینا کہ کارروائی میں شامل افراد سارہ کی موت کے ذمہ دار ہیں ، ٹائٹینک کو ڈوبنے کا ذمہ دار ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ پی اے نیوز ایجنسی اور صحافی لوئس ٹکل اور ہنا سمرز سمیت متعدد میڈیا اداروں نے ججوں کے نا مو ں پر پابندی کو چیلنج کرتے ہوئے لندن میں عدالت سے کہا ہے کہ شفافیت کے مفاد میں انہیں میڈیا رپورٹنگ میں نامزد کیا جانا چاہیے۔ بدھ کو دستیاب تحریری بیان میں تینوں نامعلوم ججوں نے کورٹ آف اپیل کو بتایا کہ وہ سارہ شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر اپنے گہرے صدمے، خوف اور افسوس کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ میتھیو پرچیز کے سی نے اپنی جانب سے تحریری دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ججوں نے اس اپیل کے ذریعے اٹھائے گئے مشکل سوالات پر دلائل دینے سے خود کوقاصر محسوس کیا، جس میں ججوں کے اپنے انفرادی کردار کے بارے میں بحث میں شامل ہونے کے بارے میں آئینی اور اخلاقی خدشات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپیل میں ایسے معاملات شامل تھے جو پوری عدلیہ پر وسیع تر اثرات مرتب کرسکتے ہیں اور تینوں جج سبھی ججوں کے مفادات کی نمائندگی نہیں کرسکتے ۔ مسٹر پرچیز نے بعد میں کہا کہ ان میں سے ہر ایک کو ان خطرات کے بارے میں شدید تشویش ہے جو ان کی نشاندہی کی صورت میں پیدا ہوں گے، خاص طور پر موجودہ حالات میں، بشمول مسٹر جسٹس ولیمز کے فیصلے کے بعد ہونے والی شدید جانچ پڑتال کے نتیجے میں عوامی اور میڈیا تبصروں کے مواد اور اکثر اشتعال انگیز نوعیت کے معاملات شامل ہیں۔یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ خدشات نہ صرف ان کی ذاتی فلاح و بہبود سے متعلق ہیں بلکہ ان کے اہل خانہ اور ان کے قریبی افراد سے بھی متعلق ہیں، جن کے مفادات پر عدالت غور کر سکتی ہے۔ بیرسٹر نے بعد میں کہا کہ ججز اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے خطرات کا مناسب اور مکمل جائزہ لیا جانا چاہئے اور اگر ان کا نام لیا جاتا ہے تو مزید تشخیص کی جانی چاہئے۔ منگل کو اپیل کے پہلے روز مائیکل اور سمرز کی جانب سے کرس بارنس نے کہا کہ ٹائٹینک کے بارے میں جج کی تشبیہ پریشان کن ہے جبکہ بی بی سی اور دیگر خبر رساں اداروں کی نمائندگی کرنے والے ایڈم ولانسکی کے سی نے کہا کہ یہ موازنہ عجیب اور غلط ہے۔مسٹر بارنس نے تحریری دلائل میں کہا کہ جج کا فیصلہ مکمل طور پر عمومی اور ناکافی بنیاد پر کیا گیا تھا اور یہ فیصلہ مبینہ طورپرغیر منصفانہ، ناقص منطقی اور غیر پائیدار تھا، انہوں نے کہا کہ یہ فیملی کورٹ میں شفافیت اور میڈیا رپورٹنگ کو فروغ دینے کی تسلیم شدہ ضرورت سے باہر تھا۔ سارہ کے والد عرفان شریف نے اپیل کی مخالفت کی۔ عرفان شریف کی جانب سے سائرس لاری زادہ کے سی نے تحریری دلائل میں کہا کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ تاریخی کارروائی کی صدارت کرنے والے جج کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔اس سے قبل میڈیا کو جاری کی گئی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ سرے کاؤنٹی کونسل نے پہلی بار 2010 میں شریف اور سارہ کی والدہ اولگا شریف سے رابطہ کیا تھا - سارہ کی پیدائش سے 2 سال سے زیادہ پہلے اپنے 2بڑے بہن بھائیوں ، جنہیں صرف زیڈ اور یو کے نام سے جانا جاتا ہے ، سے متعلق غفلت کی نشاندہی کرنے والے حوالہ جات موصول ہوئے تھے۔ سارہ کو اس کی پیدائش کے ایک ہفتے کے اندر شامل کرنا۔ 2013 سے 2015 کے درمیان زیادتی کے متعدد الزامات عائد کیے گئے جن کا عدالت میں کبھی ٹرائل نہیں کیا گیا، 2014 میں ایک سماعت میں بتایا گیا تھاکہ کونسل کو بچوں کے جسمانی استحصال اور گھریلو تشدد کے الزامات کو دیکھتے ہوئے جس میں عرفان شریف مجرم ہیں۔ بچوں کی عرفان شریف کے حوالے کئے جانے کے بارے میں اہم خدشات ہیں، 2019 میں ایک جج نے سارہ کو اپنے والد کے ساتھ ووکنگ کے اس گھر میں رہنے کی اجازت دی تھی جہاں بعد میں بدسلوکی کے بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔ نواز شریف اور سوتیلی ماں بینش بتول کو دسمبر میں سارہ کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جس میں دونوں کو بالترتیب کم از کم 40 سال اور 33 سال قید کی سزا کاٹنا پڑے گی۔ ان کے چچا فیصل ملک کو ان کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کے جرم میں 16 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ کورٹ آف اپیل کی سماعت کے اختتام پر لیڈی جسٹس کنگ اور لارڈ جسٹس واربی کے ساتھ بیٹھے سر جیفری ووس نے کہا کہ تحریری طور پر فیصلہ بعد میں دیا جائے گا۔

یورپ سے سے مزید