78 سالہ نوجوان، ایکٹیو، پھرتیلے اور انوکھے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خوبیوں اور خامیوں پر جہاں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے وہیں اعتراض و اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی ایک خصوصیت ایسی ہے جس پر سبھی اتفاق کرینگے یہ کہ ٹرمپ ایسے Unpredictable شخص یا صدر ہیں جن کے متعلق یقین سے کچھ بھی کہنا محال ہے وہ جس کسی کے خلاف زہر اگل رہے ہوتے ہیں عین ممکن ہے اسی کو پیارسے اپنے پہلو میں بٹھالیں، من میں ترنگ سمائے تو نارتھ کوریا پہنچ کر ناپسندیدہ ترین صدر سے محبت کی پینگیں بڑھانا شروع کر دیں اپنے فرینڈ مودی سے نظریںچرا لیں اور جس چین کے خلاف دن رات ہرزہ سرائی کرتے ہیں اسی کے صدر کو کال کرتے ہوئے اپنے پاس بلا لیں،بھی ہے ہیں وہ انرجیٹک، صدا بہار، اپنی دہن کے پکے، اپنی اسٹیبلشمنٹ کی اتنی زیادہ مخالفتوں اور میڈیا کی پھیلائی منافرتوں کے باوجود ٹرمپ پوری طاقت اور آن بان شان سے کامیاب ہوئے بلکہ کئی ریکارڈز قائم کر ڈالے، ” گریٹ امریکا‘‘ اور ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا جو نعرہ لگا کر وہ آج وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے ہیں تو حلف اٹھانے کے بعد خوب بولے ہیں، ہم زمین سے خلائی مشن کے ساتھ مریخ تک جا پہنچے ہیں۔ سب سے زیادہ جلی کٹی انہوں نے امیگریشن کے حوالے سے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو سنائیں جن کی بے دخلی پر وہ تلے بیٹھے ہیں۔ اس حوالے سے وہ اپنی جنوبی سرحد پر نیشنل ایمرجنسی لگانےپر بھی آمادہ ہیں آئینی ترمیم کی موجودگی کے باوجود وہ ’’سیاسی پناہ‘‘ اور ”پیدائشی حق شہریت‘‘ کو روک دینا چاہتے ہیں یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے انہیں ہیومن رائٹس سے بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے وہ پیرس ماحولیاتی معاہدے سے بھی دستبردار ہو رہے ہیںتین باتیں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت خطرناک کی ہیں اول یہ کہ امریکا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHO سے نکل جائے گا جس کا مطلب ہے کہ امریکا عالمی ادارہ صحت کو سب سے بڑھ کر اکیلا جو ملک اٹھارہ بیس فیصد مالی تعاون فراہم کرتا چلا آرہا ہے اب وہ اس سے دستکش ہو جائیگا اس عالمی ادارے کی کارکردگی کےحوالے سے انہیں کرونا کے دور سے شکایات ہیں، ٹرمپ کے اس ’’حسن سلوک‘‘ سے اس تنظیم کو عالمی سطح پر کتنا نقصان ہو گا انہیں اس کا شاید احساس نہیں دوسرے انہوں نے اس رواروی میں مڈل ایسٹ کی امن و سلامتی کو شاید ہنوز سنجیدگی سے نہیں لیا، انھوں نے حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کا جو اتنا بڑا کریڈٹ وصول کیا ہے حلف اٹھاتے ہی یہ کہتے ہوئے اس کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ وہ پر اعتماد نہیں ہیں کہ یہ جنگ بندی جاری بھی رہے گی یہ ہماری جنگ نہیں ہے انکی جنگ ہے مجھے یقین نہیں کہ ان کا یہ معاہدہ برقرار بھی رہے گا، یہ امن ڈیل جو پہلے ہی تھری فیزز میں ہے اور ہر دو فریقین پر پورے پریشر سے کروائی گئی ہے اگر امریکی پریشر ہٹ گیا اور جب اسرائیل اپنے یرغمالیوں کو رہا کروا لے گا تو اس کے بعد اسرائیلی فورسز بفر ایریا سے دوبارہ غزہ میں داخل نہیں ہو جائیں گی؟ تیسرے انہوں نے کھلے لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ امریکا میں صرف مرد اور عورت دوجینڈر ہیں تیسری کوئی جنس نہیں، کیا یہ یو این اوکے علاوہ مسلمہ انسانی حقوق اور فی الواقع موجود زمینی حقائق کا منہ چڑانے والی بات نہیں؟ ٹرانس جینڈر کے مسائل پر یونائٹڈ نیشن کے تحت پوری دنیا میں شعوری بیداری کے ساتھ کمزور اور مظلوم طبقات کیلئے جو آوازیں اٹھ ہیں کیا ٹرمپ ریاستی جبر سے ان کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں؟ صرف اس لیے کہ انکی مد مقابل ڈیموکریٹس اور کملا دیوی ہیرس نے اس سلسلے میں آواز اٹھائی تھی یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں وہ اس کا رد کرنا چاہتے ہیں جس کے متعلق وہ کہہ رہے ہیں کہ بنیاد پرست بدعنوان اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے شہریوں سے دولت چھین لی ہے کرپشن پھیلا دی ہے اور یہ کہ ہمارا تعلیمی نظام ملک سے نفرت کرنا سکھا رہا ہے اتنی اصول پسندی ہے تو پھر وہ تھوک کے حساب سے اپنے مجرموں کو معافیاں کیوں دے؟ اگر جوبائیڈن نے اپنوں کو معافیاں دی تھیں جن پر انہوں نے تنقید بھی کی تھی تو وہ خود اس سے کہیں بڑھ کر اور زیادہ بڑے پیمانے پر وہی نوازشات کیوں کر رہے ہیں؟ حتیٰ کہ کیپیٹل ہل پر حملہ آور ہونے والوں کے گناہوں کو دھونے کی لانڈری لگا دی ہے وہ اپنے اتحادیوں پر بندشیں لگانا چاہتے ہیں جبکہ ٹک ٹاک سروس بحال کرنے کا فوری حکم نامہ جاری کر دیا ہے خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکا رکھ دیا گیا ہے اور پاناما کینال جسے 1977میں صدر جمی کارٹر نے پاناما کے حوالے کیا تھا اسے دوبارہ اپنے قبضے میں لینے کے اعلانات کر رہے ہیں، برکس بلاک سے غصے میں وہ اس قدر باولے ہوئے جا رہے ہیں کہ سپین کو بھی اس میں شامل سمجھ کر دھمکی دے ڈالی انہیں کھٹکا ہے کہ کہیں برکس امریکن ڈالر کے بالمقابل کھڑی نہ ہوجائےحالانکہ اس میں بشمول بھارت، برازیل اور سعودی عرب امریکا کے قریب ترین اتحادی بھی شامل ہیں لیکن وہ آؤ دیکھے نا تاؤ ان سب پر ہنڈرڈ پرسنٹ ٹیرف عائد کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عین ممکن ہےکہ ٹرمپ اپنے اتحادی ممالک پردباؤ ڈالیں کہ تم برکس بلاک سے باہر آجاؤ۔ دوسری جانب طالبان جنکے ساتھ وہ دوحہ مذاکرات کے ذریعے باضابطہ معاہدہ کر کے گئے تھے اور نتیجتاً اشرف غنی حکومت گر پڑی تھی اب آتے ہی انہوں نے انہی طالبان سے یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ جیٹ جہازوں سمیت ہمارا چھوڑا ہوا بھاری جدید اسلحہ جس کی مالیت کوئی سات ارب ڈالر بنتی ہے ہمیں واپس کرو جبکہ طالبان ہاتھ آیا اتنا بھاری مال غنیمت کسی صورت امریکا کو واپس کرنا نہیں چاہیں گے بلکہ انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہمارا مقابلہ داعش سے ہے جس کے جنگجوؤں سے لڑنے کیلئے ہمیں ان ہتھیاروں کی ضرورت ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ بنیادی طور پر کاروباری شخصیت ہیںچنانچہ امید ہےکہ وہ حکمرانی بھی اسی اسلوب میں منفعت بخش چلائیں گے۔ انہوں نے اپنی عمر 78 برسوں کی مناسبت سے روز اول جو 78 ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ہیں اپنے اولین خطاب کی طرح ان میں بھی یہی ترجیح جھلکتی ہے کہ وہ اپنی فرسٹ امریکا پالیسی کے تحت ہر ایشو پر امریکی مفاد کو مقدم رکھیں گے ٹیرف اور معاشی بندشوں کو بطور ہتھیار استعمال کریں گے۔ آج اگر امریکہ عظیم ہے تو اس وجہ سے ہے کہ وہ یونیورسل ہیومن رائٹس کا علمبردار بن کر کمزور اقوام و طبقات کا سہارا بنتا ہے اگر امریکی صدر نے اپنے قریب ترین اتحادیوں کو دور کرنا شروع کر دیا تو پھر یہی چیز امریکی عظمت کو گہنا دیگی۔ دنیا ان سے مثبت طور پر یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ اپنے نعرے ’’جنگوں کے خاتمے‘‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اپنا عالمی ایجنڈا آگے بڑھائیں گے۔