• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکس ریٹ میں بڑا اضافہ، برآمدکنندگان اور پرچون فروش کے مقابلے میں تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس میں حصہ 300 فیصد سے زائد

اسلام آباد(مہتاب حیدر) موجودہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس کی شرح میں زبردست اضافے کے بعد تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس میں حصہ برآمد کنندگان کے مقابلے میں 300 فیصد سے زیادہ ہو گیا ہے۔

 دی نیوز نے خبر دی ہے۔حتیٰ کہ برآمد کنندگان اور ریٹیلرز کے مشترکہ ٹیکس کے مقابلے میں بھی تنخواہ دار طبقے نے پہلے چھ ماہ (جولائی تا دسمبر) کے دوران زیادہ انکم ٹیکس ادا کیا۔

آئی ایم ایف کے مطالبے پ، خاص طور پر وہ افراد جو ماہانہ 5 لاکھ سے 10لاکھ روپے یا اس سے زائد تنخواہ حاصل کرتے ہیں، ان کے لیے تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس سلیبز کی شرح کو بڑھایا گیا۔

موجودہ رفتار کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مالی سال ہوگا جب حکومت تنخواہ دار طبقے سے 30 جون 2025 تک قومی خزانے میں 500ارب روپے کی خطیر رقم جمع کرنے پر مجبور کرے گی۔

ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال کے دوران، جو 30جون 2024 کو ختم ہوا، تنخواہ دار طبقے سے 367 ارب روپے جمع کیے تھے۔

 اب آئی ایم ایف کے 7ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (EFF) کے تحت، زیادہ آمدنی والے سلیبز کے لیے ٹیکس کی شرح 40 فیصد تک بڑھا دی گئی، جس کا نتیجہ تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ کی صورت میں نکلا۔ 

دوسری طرف برآمد کنندگان کے انکم ٹیکس کو 1 فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں 80 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوا۔ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں برآمد کنندگان نے صرف 40 ارب روپے ادا کیے تھے، جب ان کا ٹیکس ریٹ صرف 1فیصد تھا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) میں تنخواہ دار طبقے نے 243 ارب روپے انکم ٹیکس ادا کیا، جبکہ برآمد کنندگان، جنہوں نے غیر ملکی کرنسی (امریکی ڈالرز) میں کمائی کی، نے اسی مدت میں صرف 80ارب روپے ادا کیے۔ 

اس موازنے سے پتہ چلتا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کا حصہ برآمد کنندگان کے مقابلے میں 300فیصد سے زیادہ رہا۔ریٹیلرز کے لیے بہت زیادہ چرچے میں رہنے والی تاجر دوست اسکیم (TDS) بری طرح ناکام ہوگئی، لیکن ایف بی آر نے رواں مالی سال میں سیکشن 236G اور 236H کے تحت ریٹیلرز سے ریونیو میں اضافہ حاصل کیا۔انکم ٹیکس قانون کے سیکشن 236G کے تحت، ڈسٹری بیوٹرز، ڈیلرز یا ہول سیلرز کو فروخت کے مجموعی حجم پر، کھاد کی فروخت کے علاوہ، 2 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

انکم ٹیکس قانون کے سیکشن 236H کے تحت، ریٹیلرز کو فروخت کے مجموعی حجم پر، ان کے لیے جو ٹیکس نیٹ سے باہر رہنا پسند کریں گے، 2.5 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔ ان دو اقدامات نے 236G اور 236H کی شکل میں غیر فائلرز کو مجبور کیا کہ وہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں بجائے اس کے کہ وہ اپنی فروخت کے مجموعی حجم پر ٹیکس ادا کریں۔

یہ سب ایف بی آر کے محاذ پر اس وقت ہو رہا ہے جب ایف بی آر کو موجودہ مالی سال کے لیے 12,970ارب روپے کا انتہائی بلند ہدف حاصل کرنے کا مشکل کام درپیش ہے۔ ایف بی آر کو پہلے چھ ماہ میں 384 ارب روپے کا خسارہ سامنا کرنا پڑا، اور وہ موجودہ ماہ (جنوری 2025) میں ایک اور خسارے کی جانب گامزن ہیں۔

اہم خبریں سے مزید