• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منرل واٹر کے 27 برانڈز غیرمعیاری، کینسر، بلڈ پریشر، دل اور گردوں کی بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ، متعلقہ ادارے خاموش تماشائی

اسلام آباد (ساجد چوہدری) ملک بھر کے شہروں اور دیہات میں پینے کے صاف پانی کے نام پر فروخت ہونے والے منرل واٹر (بوتل بند)کے 27برانڈز کا پانی مبینہ طور پر مضرصحت پایا گیا ہے ،ان میں سے بعض برانڈز میں سوڈیم ، آرسینک اور پوٹاشیم مقررہ مقدار سے زیادہ پائی گئی جبکہ بعض برانڈ کا پانی جراثیمی طور پر آلودہ پایا گیا جس کے استعمال سے جلد سمیت مختلف کینسر، گردوں ، دل، بلڈ پریشر اور پیٹ کی بیماریاں جن میں ہیضہ ہونے کے علاوہ نروس سسٹم متاثر ہونے کا خدشہ ہے، جبکہ متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ، انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کیخلاف شاید ہی کبھی سخت کارروائی عمل میں لائی گئی ہو۔ 

ذرائع کے مطابق اگر کسی کمپنی کو بند کر بھی دیا جائے تو وہ دوسرے نام سے کمپنی کھل جاتی ہے ۔ 

اکتوبر تا دسمبر 2024ء کی سہ ماہی میں ملک کے 20شہروں سے بوتل بند / منرل پانی کے 176برانڈز کے نمونے حاصل کئے گئے، ان نمونوں کا پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے ) کے تجویز کردہ معیار کے مطابق لیبارٹری تجزیہ کیا گیا تو اس تجزیے کے مطابق 176میں سے 27برانڈز پینے کیلئے غیر معیاری پائے گئے۔

 پی سی آر ڈبلیو آر کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پینے کیلئے غیر معیاری پائے گئے 27برانڈز میں سے 10برانڈز (میرن ڈرنکنگ واٹر، پاک ایکوا، جیل بوتل واٹر، نیو، آبِ دبئی، ایلٹسن، پیور واٹر، ایکوا ہیلتھ، اوسلو، مور پلس ) کے نمونوں میں سوڈیم کی مقدار، پانچ برانڈز (ون پیور ڈرنکنگ واٹر، انڈس، پریمیم صفاءپیوریفائیڈ واٹر، اورویل، نیچرل پیور لائف) کے نمونوں میں آرسینک (سنکھیا ) مقررہ مقدار سے زیادہ پائی گئی۔

 ایک برانڈ (ہنزہ اوتر واٹر ) میں پوٹاشیم مقررہ مقدار سے زیادہ پایا گیا، 16برانڈز (ایس ایس واٹر، سپ سپ پریمیم ڈرنکنگ واٹر، میرن ڈرنکنگ واٹر، ڈی -نووا، سکائی رین، نیو، پیور واٹر، ڈریم پیور، ایکوا شرو پیور ڈرنکنگ واٹر، ماروی، آئس ویل، عقب سکائی، قراقرم سپرنگ واٹر، مور پلس، اسنشیا، لائف ان) جراثیم سے آلودہ پائے گئے جوکہ پینے کیلئے مضرِ صحت ہیں۔

 رپورٹ کے مطابق 81برانڈ مارکیٹ میں موجود ہی نہیں پائے گئے، ڈائریکٹر جنرل پی سی آر ڈبلیو آر ڈاکٹر حفظہ رشید نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ کابینہ کی ہدایت پر بند بوتل (منرل واٹر)کی ملک بھر کے 24شہروں سے سہ ماہی سمپلنگ کی جاتی ہے اور اس کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے جس کی رپورٹ لیگل ایکشن کیلئے پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے )اور چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز کو بھجوائی جاتی ہے۔

 ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی کمپنی کو مختلف قسم کی ریکوائرمنٹ پوری کرنے پر ہی منرل واٹر کی فروخت کیلئے لائسنس جاری کیا جاتا ہے ، ہمارے ادارے پی سی آر ڈبلیو آر کا کام صرف ہر تین ماہ بعد سمپلز کی ٹیسٹنگ کر کے رپورٹ متعلقہ اداروں اور ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنا ہوتا ہے ، غیرمعیاری پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کیخلاف کارروائی دیگر اداروں کا کام ہے ۔

 ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کے مطابق غیرمعیاری پائے گئے پانی کے پینے سے کڈنی متاثر ہو سکتی ہے، بلڈپریشر کی بیماری ہو سکتی ہے، جلدی بیماریاں جن میں جلد کا کینسر بھی ہو سکتا ہے ، ہیضہ پھیل سکتا ہے ، ٹائیفائیڈ ہو سکتا ہے اور نروس سسٹم بھی متاثر ہو سکتا ہے ۔

 مضر صحت پائے گئے پانی کی کمپنیوں کے مالکان سے رابطے کی کوشش کی گئی تو ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ کمپنی فروخت کر دی ، بعض کا کہنا تھا کہ مالک موجود نہیں اور کسی نے فون ہی نہیں اٹھایا۔

کئی کمپنیاں سوالات کا تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ وہ معیارات کی پیروی کرتے ہیں بعض کمپنیوں کے ترجمانوں نمائندہ جنگ سے ملاقات میں غیر معیاری پانی کے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ پانی معیاری ہے اور رپورٹس جھوٹ پر مبنی ہے ۔

 لائسنسنگ اتھارٹی پی ایس کیو سی اے کے ڈائریکٹر سی اے اشرف پلیر نے رابط کرنے پر بتایا کہ منرل واٹر پلانٹ کا لائسنس ایک سخت پراسس کے بعد جاری کیا جاتا ہے جب کوئی لائسنس کیلئے اپلائی کرتا ہے تو منرل واٹر کیلئے پلانٹ کے معائنہ کے بعد فیلڈ آفیسر کی سفارش پر تھرڈ پارٹی چیکنگ پر متعلقہ افسران سے کیس ہوتے ہوئے اسکروٹنی کمیٹی کو جاتا ہے پھر اسکروٹنی کمیٹی کیس منظوری کیلئے ڈائریکٹر جنرل کو بھیجتی ہے، ڈائریکٹر جنرل کی منظوری کے بعد ڈائریکٹر سی اے لائسنس ایشو کرتا ہے ۔

 ان کا کہنا تھا کہ جن کمپنیوں کا پانی حفظان صحت کے اصولوں کیخلاف پایا جاتا ہے ان کیخلاف ایکشن لیا جاتا ہے ، ان کے سمپلز کی تین دفعہ رینڈم چیکنگ کی جاتی ہے، اگر اس برانڈ کا پانی پھر بھی ٹھیک نہ ہو تو اس کمپنی کا لائسنس منسوخ کر کے اس کی پروڈکشن کی جگہ کو سربمہر کر دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اسٹاف کی بھی بہت زیادہ کمی ہے ، صرف کراچی ریجن میں سات انسپکٹر ہیں جبکہ ہمیں پورے پاکستان کو دیکھنا ہوتا ہے اس کیلئے بھی اسٹاف کم ہے۔

اہم خبریں سے مزید