یاسر رشید
کھٹ کھٹ…کھٹ!
’’اوہو، تم صبح دیکھتے ہو نہ شام… بس کھٹ کھٹ شور مچاتے رہتے ہو۔‘‘ کاہل کوے نے چڑ کر کٹھ بڑھئی سے کہا۔
’’بھئی میں تو کام کرتا ہوں۔ میرا کام یہی ہے، ورنہ لوگ مجھے کٹھ بڑھئی کیوں کہیں۔ کٹھ کاٹھ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے لکڑی اور بڑھئی۔ تم تو جانتے ہو یہ میری چونچ اللہ میاں نے دی ہے نا یہ بڑی مضبوط ہے۔ اس کی مدد سے میں سخت سے سخت درختوں کے تنوں میں سوراخ کر لیتا ہوں‘‘۔ کٹھ بڑھئی بولا۔
’’مگر خواہ مخواہ سوراخ کرنے سے کیا فائدہ؟‘‘کوے نے پوچھا۔
’’میں بلا وجہ سوراخ نہیں کرتا یہ دیکھو میں نے اس چوڑے تنے میں کتنے سارے سوراخ کر دیے ہیں۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
اس لیے کہ ان میں خوراک رکھی جاسکے۔ یہ میری الماری ہے سمجھے؟
’’اونہہ کون اتنی محنت کرے۔ ہم تو تازہ پھل کھاتے ہیں، تازہ پھل سمجھے،‘‘ کوے نے منہ بنا کر کہا۔
کھٹ کھٹ کھٹ، کٹھ بڑھئی نے سوراخ کرنے شروع کر دیے۔ سوراخ تیار ہوگئے تو کٹھ بڑھئی نے بہت سارے پھل لا لا کر ان سوراخوں میں رکھ دیے۔ وہ روزانہ انہیں اپنی چونچ سے الٹتا پلٹتا رہتا کہ پھل ایک ہی طرح رکھے رہنے سے خراب نہ ہوجائیں اور انہیں ہوا ملتی رہے۔
کاہل کوا، کٹھ بڑھئی کو دیکھ دیکھ کر ہنستا رہتا۔ کچھ دنوں بعد موسم بدل گیا برف پڑنے لگی۔ ہر طرف برف ہی برف نظر آنے لگی۔ درختوں پر بھی برف جم گئی، تمام پھل درختوں سے غائب ہو گئے
ایک دن کٹھ بڑھئی اپنے گھر سے نکلا تو دیکھا کہ کوا برف پر سر جھکائے بیٹھے ہیں۔
’’ارے تمہیں کیا ہوا؟‘‘
’’ہونا کیا ہے بھوک کے مارے دم نکل رہا ہے۔ کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘ کوے نے کمزور سی آواز میں رونی صورت بنا کر کہا۔
’’ار ے تم مجھ سے تو کہتے، آؤر تم میرے مہمان ہو۔‘‘
کٹھ بڑھئی نے کوے کو سہارا دیا اور اپنے گھر لے گیا، پھر الماری کے ایک سوراخ میں چونچ ڈال کر پھل نکالے اور کوے کو کھلائے۔
کوے نے پھل کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا اور بولا۔
’’واقعی تم بہت اچھے ہو تم نے محنت کی اور آج تمہیں کوئی پریشانی نہیں۔ اگر میں بھی تمہاری طرح محنتی ہوتا اور آنے والے دنوں کے لیے پہلے سے تیاری کر لیتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔‘‘
دیکھا بچو! محنت میں کتنی عظمت ہے۔ آپ بھی کبھی محنت سے جی نہ چرانا، دل لگا کر پڑھنا اور اپنا مقام بنانا۔