• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکیہ اور پاکستان دنیا میں دو ایسے ممالک ہیں جنکے عوام اپنے ملک کے قیام یا پھر آزادی حاصل کرنے سے قبل ہی ایک دوسرے سے گہری محبت کرتےآرہے ہیں اور اس محبت، پیار الفت اور عشق کو دنیا کے ممالک کیلئے ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تعلقات کے بارے میں اکثر ترک کہتے ہیں ’’پاکستان کا نام آتے ہی بہتا پانی تک رک جاتا ہے‘‘۔ اگرچہ پاکستان میں عام طور پر محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ ہی ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن دراصل ہندوستان میں پہلی اسلامی سلطنت یا پہلا حکمران جسےخلافتِ عباسیہ کی جانب سے سلطان کا لقب عطا کیا گیا وہ سلطان محمود غزنوی ہی تھے جنہوں نے ہندوستان پرکئی حملے کرتے ہوئے علاقے میں اپنی حاکمیت قائم کی۔ اُردو زبان ان ہی کے سپاہیوں (لشکر)کی جانب سے تمام علاقائی زبانوں کے الفاظ کو یکجا کرتے ہوئے استعمال کیے جانے کے باعث اُردو ( فوج یا لشکر) کے نام سے معرضِ وجود میں آئی ۔ غزنوی خاندان کے بعد غوری حکمرانوں پھر خاندانِ غلامہ یا مملوکوں نے دہلی ترک سلطنت جس کے بانی قطب الدین ایبک تھے حکمرانی قائم کی جبکہ خلجی اورتغلق خاندانوں کا تعلق بھی ترک گھرانوں سے تھا ۔ پھر ظہیر الدین بابر نے 26 دسمبر 1530 ء میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جسے ہمایوں، اکبر اعظم، جہانگیر، شاہجہاں، عالمگیر نے جاری رکھا اور بہادر شاہ ثانی کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست کے بعد سلطنتِ مغلیہ کے چراغ بجھ گئے۔ انگریزوں کے سلطنتِ عثمانیہ کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر نے پر برصغیر کے مسلمانوں نے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی قیادت میں تحریک خلافت کا آغاز کردیا جس نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا ۔ علّامہ اقبال نے ترکوں کیلئے شروع کردہ چندہ مہم کے دوران 1912ء میں بادشاہی مسجد لاہور میں انتہائی اثر انگیز انداز میں طرابلس کے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے اپنی نظم میں حضرت محمد ﷺ کے حضور پیش ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت محمد ﷺ نے پوچھا

ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟؍حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملت؍تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی؍ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں؍وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی؍مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں؍جو چیز اس میں ہےجنت میں بھی نہیں ملتی؍جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں؍طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں۔۔علامہ محمد اقبال کی اس نظم نے پورے مجمع کو رلا کر رکھ دیا اور خود بھی رو پڑے۔ اس چندہ مہم میں مسلمانوں نے ڈیڑھ ملین اسٹرلنگ پونڈ جمع کرتے ہوئےحکومتِ ترکیہ کو روانہ کیے۔خواتین نے ترکوں کی امداد کے لیے اپنے زیورات تک دینے میں ذرہ بھربھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ (بعد میں اسی رقم سے ترکیہ کے اِش بینک کو قائم کیا گیا ) ۔پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جنا ح، غازی مصطفیٰ کمال اتاترک سے بہت متاثر تھے ۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان بڑی حد تک مشابہت پائی جانے کیساتھ ساتھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔ محمد علی جناح ایک منجھے ہوئے وکیل تھے اور انہوں نے ہندوستان میں مذاکرات اور سیاسی جدو جہد جاری رکھتے ہوئے نئی مملکت ’’پاکستان‘‘ کے قیام کی راہ ہموار کی تھی جبکہ غازی مصطفیٰ کمال اتاترک نے سلطنتِ عثمانیہ کے مختلف حصوں پر قابض اتحادی افواج سے جنگ کرتے ہوئے پورے اناطولیہ اور تھریس کے ایک حصے پر مشتمل نئی مملکت ’’ترکیہ‘‘ کے نام سے قائم کی۔ اگرچہ دونوں رہنما ئوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا کوئی موقع میسر نہ آیا لیکن قائد اعظم کے دل میں اتاترک کے بارے میں بڑی محبت اور احترام پایا جاتا تھا۔ اسلئے جب 1938ء میں اتاترک نے وفات پائی تو قائد اعظم نے ’’عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت اور عظیم جنرل قرار دیتے ہوئے ، اتحادی قوتوں کو شکست سے دوچارکرنے، انقلابات برپا کرنے اور ملک کو نہایت ہی مختصرمدت میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ذکر کرتے ہوئے اتاترک کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔ قیام پاکستان کے فورا بعد قائد اعظم نے ترکیہ کیساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہوئے علمی اور ادبی شخصیت میاں بشیر احمدکو پاکستان کا پہلا سفیر نامزد کیا جبکہ ترکیہ کے اپنے دور کی مشہور علمی و ادبی شخصیت یحییٰ کمال بیاتلی نے 4مارچ 1948ء کو قائداعظم کو اسنادسفارت پیش کیے۔ اس موقع پر قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ‘‘ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کے عوام آپ کے ملک کو بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اب دونوں ممالک کو آزاد اور خودمختار ہونے کے ناتے ایک دوسرے کیساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینا ہوگا ۔

تازہ ترین