• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

16ویں کراچی لٹریچر فیسٹول کا اختتام، عالمی و قومی معاملات پر بصیرت انگیز گفتگو

جدید دور کے تقاضے، مصنوعی ذہانت (اے آئی)، عالمی منظر نامہ، فنون لطیفہ، سمیت اہم موضوعات پر تین روز تک مکالمے ہوئے، جہاں اعداد و شمار، دلائل اور حقائق نے سوچ کی راہیں کھولیں۔ یہ سب کچھ کراچی لٹریچر فیسٹیول (کے ایل ایف) کا حصہ رہا، جہاں علم و ادب، تحقیق اور جدید دنیا کے چیلنجز پر غور کیا گیا اور فیسٹیول اس پیغام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ ’Narratives from the Soil‘ کو عوامی آواز کے طور پر تسلیم اور فروغ دیا جائے۔

’اربن ڈائیلاگ: دی کراچی کچہری‘ کے عنوان سے ہونے والے سیشن میں شہری مسائل کو مرکزیت حاصل رہی، جس میں مرتضیٰ وہاب، منصور رضا، اور بلال حسن نے کراچی کی گورننس اور انفرااسٹرکچر کے مسائل پر روشنی ڈالی۔ اس سیشن کی نظامت مہیم مہر نے کی۔

اہم قومی اور عالمی معاملات پر بصیرت انگیز گفتگو سامعین کی توجہ کا مرکز رہی۔ ’پاکستان بنگلادیش تعلقات: ایک نیا آغاز‘ کے سیشن میں اکرام سہگل اور سلمیٰ ملک نے دونوں ممالک کے بدلتے ہوئے تعلقات پر گفتگو کی۔

ایک اور اہم مکالمہ، ’پاکستان کی آبادی: وقت کا بم یا فائدہ؟‘ میں ماہرین عذرا فضل پیچوہو، لبنیٰ ناز، یحانہ احمد اور خالد مسعود نے شرکت کی۔ نعیم صادق کی نظامت میں اس پینل نے پاکستان کے آبادیاتی رجحانات کے باعث پیدا ہونے والے چیلنجز اور مواقع پر تبادلہ خیال کیا۔

کاروبار میں پائیداری کے اہم مسئلے کا جائزہ ’Integrating Impact and Sustainability into Business, Investment, and Life‘ سیشن میں لیا گیا۔ علی حبیب کی میزبانی میں منعقدہ اس سیشن میں مارٹن ڈاسن، مایا عنایت اسماعیل اور قاسم علی شاہ نے شرکت کی۔

ایک اور اہم گفتگو، ’کیا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے سیاسی مباحثے کے معیار کو نقصان پہنچایا؟‘ میں ممتاز شخصیات اظہر عباس، عنبر رحیم شمسی، شہزاد غیاث شیخ اور فیصل سبزواری نے جدید میڈیا اور اس کے سماجی اثرات پر ندیم فاروق پراچہ کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔

معروف ناول نگار کامیلا شمسی نے ’الفاظ کے ساتھ بنائی دنیا‘ کے سیشن میں حسن زیدی کے ساتھ اپنے ادبی سفر پر گفتگو کی۔ حمید اختر اور طلعت حسین جیسی ادبی شخصیات کی وراثت کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے منعقدہ سیشن میں صبا حامد اور تزئین حسین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس سیشن کی نظامت حارث خلیق نے کی۔

ٹیلی ویژن کے عروج اور فن و مقبولیت کے درمیان مسلسل کشمکش کا جائزہ ’چھوٹی اسکرین کی بڑی فتوحات‘ کے سیشن میں لیا گیا۔ اس مباحثے میں نورالہدیٰ شاہ، صبا حمید، ندیم بیگ اور سرمد کھوسٹ نے شرکت کی جبکہ اس کی میزبانی شائستہ لودھی نے کی۔

اردو ادب کے عظیم ہستیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے والے ادبی مکالمے ’اردو کی تازہ بستیاں‘ میں نامور شاعر اور ادیب افتخار عارف، حارث خلیق، اور اشفاق حسین نے شرکت کی جبکہ نظامت زرمیناء انصاری نے کی۔

شاعری کے شوقین افراد کے لیے ’کچھ غزلیں، کچھ نظمیں‘ بھی پیش کی گئیں۔ معظم علی خان نے اپنا کلام پیش کیا اور اس سیشن کی میزبان مایا خان تھیں۔ کراچی کے ادبی اور شعری ورثے کو ’کراچی: کہانیاں اور نظمیں‘ میں پیش کیا گیا۔ پیزادہ سلمان کی نظامت میں ہونے والے سیشن میں شہزاد، سجاد احمد اور افضل احمد نے شرکت کی۔

ماہرین نے ’کال ٹو ایکشن: پاکستان میں تعلیمی اصلاحات‘ کے سیشن میں ضروری اصلاحات پر گفتگو کی۔ اس مکالمے میں فرید پنجوانی، شاہد صدیقی، پرویز ہودبھائی، فیصل مشتاق اور مائرہ مراد خان نے شرکت کی جبکہ اس کی نظامت فیصل باری نے کی۔

’درس و تدریس میں نئے رجحانات‘ کے عنوان سے ایک اور اہم سیشن منعقد ہوا، جس میں انجم ہالائی، محمد علی شیخ، سلمیٰ عالم اور خدیجہ بختیار نے تعلیم اور اساتذہ کی تربیت کے مستقبل پر روشنی ڈالی۔ اس مکالمے کی میزبانی ندا ملجی نے کی۔

یوتھ پویلین میں دلچسپ اور تفریحی سیشنز کا انعقاد کیا گیا، جن میں عاطف بدر کے ساتھ ’تھیٹر فن اینڈ گیمز‘، آمنہ غلام حسین کے ساتھ ’مائنڈ ٹوِسٹرز: دی تھنکنگ زون‘، عاطف بدر کے ساتھ ’میوزک اینڈ ڈانس‘  اور آنٹی تاشی کی ’اسٹوری ٹائم‘ شامل تھیں۔

کلاسیکی بچوں کے گیتوں کو ’گیتوں کی محفل: سہیل رعنا کے مشہور گیت‘ میں عاطف بدر کے ذریعے دوبارہ پیش کیا گیا۔

ایک دلچسپ تھیٹر پرفارمنس ’ان فٹ حال ہے دنیا میرے آگے: گرپس تھیٹر‘ خالد انعم اور ان کی ٹیم نے پیش کی۔

نوجوان ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی ’ینگ آتھرز اینڈ پوئٹس‘ میں کی گئی، جس کی میزبانی شیرازاد جمالی نے کی۔

کے ایل ایف کی اختتامی تقریب میں سابق سینیٹر خوش بخت شجاعت اور صحافی مشعال حسین سمیت نمایاں مقررین نے شرکت کی۔

قافتی ورثے اور کہانیوں کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مشال حسین نے کہا کہ فن اور ادب کسی معاشرے کی تشکیل اور ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور کے ایل ایف سماجی ترقی کے بہترین ذرائع میں سے ایک ہے۔

خوش بخت شجاعت نے کراچی میں ایسی تقریبات کو مزید فروغ دینے کےلیے سرکاری اور نجی شراکت داری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کراچی کو ایسے پلیٹ فارمز کو مستحکم کرنا ہوگا تاکہ جمہوری اصولوں کو تقویت ملے۔

گیٹز فارما کے منیجنگ ڈائریکٹر خالد محمود اور مایا عنایت اسماعیل چیئرپرسن سسٹین ایبلٹی فورم ایچ بی ایل نے اپنے اداروں کی جانب سے کے ایل ایف جیسے ادبی اقدامات کو سپورٹ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

او یو پی پی کے منیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے کے ایل ایف کے ساتھ مسلسل وابستگی پر تمام اسٹیک ہولڈرز، مہمانوں، مقررین اور کراچی کے عوام کا شکریہ ادا کیا۔ دن کا اختتام روایت کے مطابق استاد فرید ایاز اور استاد ابو محمد کی سحر انگیز قوالی کے ساتھ ہوا۔

خاص رپورٹ سے مزید