• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں ترکیہ ایک ایسا ملک ہے جس کے تمام عوام اور رہنماپاکستان کے قیام سے اس سے گہری محبت کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ ترکوں کی ایک کہاوت ہے Türk'ün Türk'ten Başka Dostu Yoktur یعنی ترکوں کا ترکوں کے سوا کوئی دوست نہیں لیکن تمام ترک اس بات پر متفق ہیں کہ ترکوں کا ایک ہی سچا اور کھرا دوست صرف اور صرف پاکستان ہے،ترکوں کے دلوں میں پاکستان سے محبت اور عشق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے شاید اسکی سب سے اہم اور بڑی وجہ پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر اتحادی ممالک کے ترکوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے، خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے اور اسے آپس میں تقسیم کرنے کے موقع پر برصغیر کے مسلمانوں (اس وقت تک پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا) کا ترکوں کی مدد کو دوڑنا اور اپناتن من دھن سب کچھ ترکوں پر فدا کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے پورے ہندوستان کے مسلمانوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے حق میں تحریک خلافت کا آغاز کیا اور پھر غازی مصطفیٰ کمال نے جب اتحادی ممالک کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے جدید جمہوریہ ترکیہ کے قیام کو عملی شکل دی تو برصغیر کے مسلمانوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جنگ کی وجہ سے شدید غربت کے شکار ملک ترکیہ کو نہ ختم ہونے والی امداد فراہم کرنے کیلئے چندہ مہم کا آغاز کردیا تو بھلا مسلمان خواتین کیسے پیچھے رہتیں، انہوں نے ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے اپنے تمام زیورات تک کو اس چندہ مہم میں دینے کو اپنے لیے خوش بختی سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس وقت سے لیکر آج تک ترک بھائی برصغیر کے مسلمانوں (یعنی پاکستان) کیلئے اپنے دلوں میں خصوصی جگہ بنائے ہوئے ہیں۔تمام ہی ترک سیاستدانوں نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان سے نہ صرف قریبی مراسم قائم کیے بلکہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ دنیا میں ان دونوں کے قریبی تعلقات کی مثال دی جانے لگی اور پھر قبرص کی جنگ کے موقع پر جس طرح پاکستان نے ترکیہ کی نہ صرف مالی امداد کی بلکہ عسکری امداد دینے سے بھی گریز نہ کیا اس سے دونوں ممالک کی محبت اور برادرانہ تعلقات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایردوان کے 2002ء میں بر سر اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ ان دونوں ممالک کو ’’یک جان دو قالب‘‘ یا پھر ایک قوم دو ریاستوں کے طور پر جانا اور پہچانا جانے لگا۔ پاکستان میں اس وقت ترک رہنما ایردوان کو جو مقام، قدرو منزلت اور شہرت حاصل ہے شاید ہی یہ مقام کسی دیگر غیر ملکی رہنما کو حاصل ہوا ہو۔ ایردوان دراصل پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ صدرایردوان کی پاکستان اور پاکستانیوں سے گہری محبت کے پیچھے پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کا نمایاں ہاتھ ہے کیونکہ ایردوان علامہ محمد اقبال کے اشعار اور فلسفے سے بڑے متاثر ہیں اور جب وہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کے اشعار پڑھتے ہیں تو مجمعے میں نیا جوش و خروش پیدا ہو جاتا ہے۔

صدر ایردوان کو پاکستان پر اعتماد اور بھروسہ اسلئے بھی ہے کہ اس ملک نے سب سے پہلے دہشت گرد تنظیم ’’فیتو‘‘ کو دہشت گرد ڈکلیئر کرواتے ہوئے دنیا کیلئے مثال تشکیل دی۔ صدر ایردوان 12تا 13فروری پاکستان کا دورہ کرینگے، جہاں وہ 13فروری کو وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ پاکستان ترکیہ ہائی لیول اسٹرٹیجک کوآپریشن کونسل کے ساتویں اجلاس میں شریک ہونگے۔ دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان زرعی شعبے سمیت اقتصادی تعاون کو مزید مستحکم کرنے کیلئے مفاہمت کی متعدد یادداشتوں پر دستخط کئے جانے کا امکان ہے۔ یاد رہے صدر ایردوان اس سے قبل نو بار پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں اور انہیں چار بار پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنیکا بھی اعزاز حاصل ہے۔ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قسمت کے دھنی ہوتے ہیں اور اپنی قسمت خود اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں۔ ان گنی چنی شخصیات میں ترکیہ کے صدر ایردوان بھی شامل ہیں۔ وہ غربت کی چکی سے کندن بن کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچے ۔ایردوان نےاپنے ادوار میں نہ صرف ترکیہ کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا بلکہ ترکیہ کو تیسری دنیا کی کیٹگری سے نکال کر دنیا کی سولہویں اقتصادی قوت بنا نے میں کامیابی حاصل کی اور تین سو ڈالر فی کس آمدنی کو دیکھتے ہی دیکھتے گیارہ ہزار ڈالر تک پہنچادیا۔ صدر ایردوان گزشتہ 22سال سے مسلسل اپنی مقبولیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے اقتدار کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایردوان کا اقتدار حاصل کرنیکا سفر کوئی آسان نہ تھا ۔ انکے راستے میں فوج اور بیورو کریسی نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور 15جولائی 2016ء میں دہشت گرد تنظیم ’’فیتو‘‘ کی ناکام فوجی بغاوت جسے ترکیہ کی تاریخ میں خونیں بغاوت کے نام سے یاد کیا جاتا بھلا کون بھول سکتا ہے؟ ایردوان کی اپیل پر ترک عوام فوری طورپر سڑکوں پر نکل آئے اور ٹینکوں کےآگے لیٹ کر اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر انہوں نے پہلی بار ملک میں مارشل لا لگانے کی ریت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کچل کر رکھ دیا۔

صدر ایردوان سفارتی لحاظ سے بھی مردِ آہن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کروانے اور یوکرین کے غلے کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ شام میں گزشتہ 13سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر جس طرح شام سے بشار الاسد کو فرار ہونے پر مجبور کیا اور روس اور ایران کا بڑے اسٹرٹیجک طریقے، ہوشیاری اور دانشمندی سے شام میں پتہ گول کیا وہ اپنی مثال آپ ہے اور تمام بڑی بڑی طاقتیں صدر ایردوان کی اس کامیابی پر منہ دیکھتے ہی رہ گئیں اسی لیے مجبور ہو کر امریکہ کے صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’شام کی کنجی صدر ایردوان کے ہاتھوں میں ہے‘‘۔ ہم اس موقع پر پاکستان کے سچے اور کھرے دوست، مردِ آہن صدر ایردوان کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

تازہ ترین