• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شہباز شریف نے دبئی میں منعقدہ ’’ورلڈگورنمنٹس سمٹ 2025ء‘‘ میں ماحولیاتی فنانس کے لئے درست طور پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے کثیر قومی اداروںسے کہا ہے کہ وہ پاکستان جیسی ابھرتی معیشتوں کی پائیدار اقتصادی بڑھوتری کی حمایت کریں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف متحدہ عرب امارات کا دو روزہ دورہ مکمل کرکے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں ۔اس دورے میں انہوں نے متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النہیان، دبئی کے حکمراں شیخ محمد بن راشد المکتوم اورکویت کے وزیراعظم شیخ احمد عبداللہ الاحمد الصباح سے ملاقاتیں کیں ۔ سری لنکا کے صدر انورا کمارا ڈسانائیکے، بوسنیا ہرزیگووینا کی چیئرپرسن برائے صدارت زنجکا سیویجا نووچ اور کئی اہم کاروباری شخصیات سے بھی مفید تبادلہ خیال ہوا۔ وطن واپسی سے قبل انہوں نے عالمی حکومتی سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب میں بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ ماحولیاتی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی میں حصہ داری موثر بنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر سبز معیشت پر منتقلی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ پاکستان کو گرین انرجی پر منتقلی کیلئے 100ارب ڈالر درکار ہیں، پاکستان 2030ء تک 60فیصد کلین انرجی مکس کے حصول کیلئے پرعزم ہے، 30فیصد گاڑیاں الیکٹرک پر منتقل کی جائیں گی۔ وزیراعظم نے بتایا کہ متعدد چیلنجوں کے باوجود پاکستان میں گزشتہ سال کے دوران نمایاں معاشی بہتری آئی ، پاکستان عالمی سرمایہ کاروں کیلئے ایک پرکشش مقام بن گیا ہے۔ انہوں نے کاروباری اداروں سے کہا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع سے بھرپور استفادہ کریں۔ غزہ اور مغربی کنارے پر انسانی اقدار کی پامالی ایسا موضوع ہے جس پر پاکستانی موقف کا اعادہ ضروری تھا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی سے پائیدار امن کو دھچکا پہنچاتاہم پائیدار اور منصفانہ امن کا حصول صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ممکن ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اس موقع پر ’’ایج آف گورنمنٹ‘‘ نمائش کا دورہ بھی کیا۔ قصر الشاطی پہنچنے پر صدر یو اے ای شیخ محمد بن زید النہیان نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کی شمولیت اس ملاقات کی اہمیت ظاہر کر رہی ہے۔ امارات کے نائب صدر اور دبئی کے فرماں رواں شیخ محمد بن راشد المکتوم سے ملاقات میں میاں شہباز شریف نے پاکستان کی سرمایہ کار دوست پالیسی پر روشنی ڈالی جس کا مقصد توانائی، انفرا اسٹرکچر، کان کنی اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں یو اے ای کے سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ متحدہ عرب امارات ان ملکوں میں شامل ہے جو مشکل وقتوں میں پاکستان کیساتھ کھڑے رہے اور آئی ایم ایف کی طرف سے طلب کی جانے والی کئی ضمانتوں کی ذیل میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ پاکستانی عوام برادر ملک کے اس تعاون کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ایسے وقت، کہ غزہ میں بدترین نسل کشی کے واقعات کے بعد جنگ بندی کے باوجود بعض بیانات تشویش کا سبب بن رہے ہیں برادر مسلم ممالک کے درمیان باہمی رابطے زیادہ موثر بنانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اشتعال انگیز بیان کے بعد 27فروری کو عرب لیگ کا اجلاس طلب کرلیا گیا۔ او آئی سی کی سطح پر بھی رابطوں، مشاورت اور مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت اجاگر ہو رہی ہے۔ جبکہ دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے حامل اور آگے بڑھنے کی جدوجہد میں مصروف ملکوں کے درمیان باہمی تعاون معیشت ہی کی نہیں عالمی امن کی بھی ضرورت ہے۔ میاں شہباز شریف کی سری لنکا اور بوسنیا کے رہنمائوں سے ہونے والی بات چیت یقیناً اس باب میں ثمرآور ہوسکتی ہے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا موجودہ دورہ پاکستان بھی عالمی امن کی صورتحال اور دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات کے ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔

تازہ ترین