’’پاکستان ترقی کیوں نہیں کر رہا؟‘‘یہ سوال اکثر چٹکیاں کاٹتا ہے اور ہر شخص اپنے تجربات و مشاہدات اور فہم وفراست کی روشنی میں مختلف توجیہات بیان کرتا ہے۔ مگر گزشتہ ہفتے لاہور کے بڑے کاروباری مرکز شاہ عالم مارکیٹ جانے کا اتفاق ہوا تو ایک نیا پہلو سامنے آیا۔ سب سے پہلے تو اس بات پر حیرت ہوئی کہ پنجاب بھر میں تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کے اثرات ابھی تک یہاں نہیں پہنچے۔ تہہ خانے میں موجود ایک چھوٹی سی دکان پر تنگ دامنی کا یہ عالم تھا کہ کیش کائونٹر پر بیٹھے شخص کے علاوہ کسی گاہک کیلئے کرسی دستیاب نہیں تھی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ وہاں رُکنے کا اتفاق ہوا تو اس دوران کم وبیش 10لاکھ روپے کا کاروبار ہوا۔ یعنی دن میں دس گھنٹے کام ہو تو اوسطاً یومیہ ایک کروڑ روپے کی اشیاء فروخت ہوتی ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی دکان جو تہہ خانے میں ہے اس کی یومیہ فروخت ہے تو بڑی دکانوں کی کیا صورتحال ہو گی، آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ تھوک کے حساب سے چیزیں بیچنے والوں کے ہاں منافع کی شرح پرچون فروشوں کی نسبت بہت کم ہوتی ہے مگر اسی حساب سے بِکری زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ ہی دیر بازار میں گھوم پھر کر اندازہ ہوا کہ یہاں بیشتر دکانوں میں یہی صورتحال ہے۔ کم و بیش ہر دکاندار باریش ہے جسے لوگ حاجی صاحب کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ حاجی صاحب وضع قطع کے اعتبار سے بہت نیک اطوار انسان معلوم ہوتے ہیں۔ لین دین کے کیسے ہیں، منافع کتنا لیتے ہیں، یہ سب باتیں یہاں زیر بحث لانا مقصود نہیں۔ سردست محض ایک مخصوص طرز عمل کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ ہر سال حاجی صاحب خصوصی پیکیج لیکر عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ دو چار برس میں حج کرنے کیلئے بھی دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ لیکن ٹیکس نہیں دیتے۔ ہر طرح کے ٹیکس سے بچنے کیلئے آن لائن ادائیگی کی سہولت دستیاب نہیں۔ بڑی دکانوں پر بھی کہیں آن لائن پیمنٹ کیلئے مشین دکھائی نہیں دے گی۔ آپ چاہے لاکھوں کی خریداری کریں، ہاتھ سے بنایا ہوا کچا بل بنا کر دیا جائے گا تاکہ کسی قسم کی سند اور ثبوت باقی نہ رہے۔ ان پرہیز گار کاروباری شخصیات سے مکالمہ ہوا تو یہ ملکی حالات پر بہت کڑھن کا اظہار کریں گے، حکمرانوں کو دل کھول کر گالیاں دیں گے اور بتائیں گے کہ چوروں اور ڈاکوئوں کے مسلط ہونے کی وجہ سے یہ ملک ترقی نہیں کر رہا۔ پاکستان کا کچھ نہیں ہو سکتا لیکن جب ٹیکس دینے کی بات ہو گی تو بِدک جائیں گے۔ تاجر تنظیمیں احتجاج پر اُتر آئیں گی۔ اسی طرح ان بڑے بازاروں میں یومیہ لاکھوں روپے کمانے والے حاجی صاحبان سے کاروباری حالات پر بات ہو گی تو نہایت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمائیں گے، اخراجات پورے نہیں ہو رہے، دھندہ بہت مندہ چل رہا ہے، بس کیا کریں کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ لیکن چند برس بعد حاجی صاحب کوئی نئی دکان خرید لیتے ہیں، کسی بڑی ہائوسنگ سوسائٹی میں عالیشان گھر تعمیر کروا کر اس پر ’ہٰذا مِن فَضلِ رَبّی‘لکھوا دیتے ہیں۔ لیکن جب ٹیکس دینے کی بات ہو تو کہتے ہیں یہ حکومت چور ہے، کیا اس لیے ٹیکس دیں کہ سرکاری افسر عیاشیاں کریں؟ شاید آپ بھی یہ سوچ رہے ہوں کہ ٹیکس نیٹ میں آنے اور رجسٹرڈ ہونے کی کیا ضرورت ہے، ٹیکس حکام انہیں ہی پریشان کرتے ہیں جو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ شاید بعض قارئین اس بات کا بھی طعنہ دیں کہ خود آپ کے ساتھ ایف بی آر نے کیا سلوک کیا۔ یہ سب خدشات اپنی جگہ درست ہیں۔ ہمارے ہاں ٹیکس کا نظام بہت فرسودہ اور بیہودہ ہے۔ سرکاری خرچ پر گلچھرے اُڑانے اور حکومتی شاہ خرچیوں کی بات میں بھی وزن ہے۔ لیکن اگر ہر شخص اسی سوچ کے تحت اپنے فرائض سے پہلو تہی کرنا شروع کر دے گا تو کیا ہو گا؟ ملکی معیشت کی ہچکولے کھاتی کشتی ایک دن ڈوب جائے گی اور جو کاروباری افراد ٹیکس ادا نہیں کر رہے، ان کے حصے کا بوجھ بھی اس عام آدمی کو اُٹھانا پڑے گا جو پہلے ہی ظالمانہ ٹیکسوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اب آتے ہیں اس معاملے کے دوسرے پہلو کی طرف۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ٹیکس برضا و رغبت نہیں دیا جاتا بلکہ ہمیشہ وصول کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی اگر یہ توقع رکھی جائے کہ کاروباری افراد ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے از خود ٹیکس ادا کریں گے تو ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں سرکاری افسروں اور ملازمین کی جو فوج بھرتی کی گئی ہے وہ کس مرض کی دوا ہے؟ انہیں خوبصورت دفاتر، چمکتی ہوئی وردیاں، پر تعیش گاڑیاں اور دیگر مراعات کس لیے دی جاتی ہیں؟ اسلیے کہ یہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کریں، فیلڈ میں جائیں اور انکے خلاف کارروائی کریں جو سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس چرا رہے ہیں۔ لیکن یہ سرکاری اہلکار اپنے دفاتر سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ اگر صرف لاہور کے تین بڑے بازاروں شاہ عالم مارکیٹ، اکبری منڈی اور ہال روڈ سے سیلز اور انکم ٹیکس وصول کر لیا جائے تو ایف بی آر کے موجودہ ریونیو کو دوگنا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرز کی کارروائیاں فیصل آباد، سیالکوٹ، راولپنڈی، کراچی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں کی جائیں تونہ صرف بجلی کے بلوں پر ناروا ٹیکس ختم کیے جا سکتے ہیں بلکہ تمام گھریلو صارفین کو بجلی مفت مہیا کی جا سکتی ہے۔ عوام کو بالواسطہ ٹیکسوں کے عذاب سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ حقیقی آزادی کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا ہے کہ آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اُڑنا۔ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔ نہ حکومتوں میں دم خم ہے، نہ سیاسی جماعتیں اپنے حقیر مفادات سے دستبردار ہونے اور غیر مقبول فیصلے کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی ایف بی آر کے افسر اور اہلکار اس جھمیلے میں پڑنے کو تیار ہیں۔ یہ سب چاہتے ہیں کہ نظام جوں کا توں رہے ۔ یہ ملک کسی صورت ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو کیونکہ یہ سب نظام کے Beneficiaries ہیں۔ سرکاری خرچ پر عیاشی کرنے والے سرکاری افسروں، بدعنوانی سے اثاثے بنانے والے حکمرانوں، ٹیکس چوری اور ناجائز منافع خوری کے ذریعے ترقی کرنے والوں کا یہ محبوب مشغلہ اور تکیہ کلام ہے کہ ’’پاکستان ترقی کیوں نہیں کر رہاـ؟‘‘