کراچی( ثاقب صغیر ) کراچی میں اسلحے کی ترسیل اور وارداتوں میں غیر قانونی اسلحہ کی دستیابی کے حوالے سے سی ٹی ڈی کی تفتیش میں کئی انکشافات سامنے آئے ہیں،ٹیپمر شدہ نمبروں والے اسلحے کی جعلی رسیدوں پر خریداری،ہے،اسٹریٹ کرائم سمیت دیگر جرائم پیشہ افراد کو کرائے پرفراہمی ،آن لائن بکنگ،پستول کا ریٹ 35سے 55ہزار روپے جبکہ کلاشنکوف کا ایک لاکھ 30ہزار روپے کراچی پہنچانے کا لیا جا رہا ہے،پی او ایف کی گولی 120 روپے،چائنا کی 180 روپے،سی زیڈ کی 250 روپے ، درے کی 20 سے 60 اور 70 روپے میں دستیاب ، سی ٹی ڈی کی رپورٹ۔آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے سندھ میں اسلحے کی غیر قانونی ترسیل کے حوالے سے سی ٹی ڈی کو اسپیشل ٹاسک دیا گیا تھا اور اس کے لیے سی ٹی ڈی میں ایک "آرمز ٹریفیکنگ اینڈ مانیٹرنگ ڈیسک ( اے ٹی یم ڈی )" بنایا گیا تھا۔سی ٹی ڈی کی تفتیش کے مطابق اس وقت شہر میں موجود اسلحے کی تین کیٹیگریز وائٹ ، گرے اور بلیک موجود ہیں۔وائٹ کیٹیگری میں موجود اسلحہ لائسنس یافتہ اور قانونی اور تمام متعلقہ ڈیپارٹمنٹس میں رجسٹرڈ ہے۔گرے کیٹیگری میں موجود اسلحہ بڑی تعداد میں شہر میں موجود ہے تاہم اس کیٹیگری کے اسلحے میں بڑے پیمانے پر قانون کی خلاف ورزیوں کے ساتھ خامیوں کی بھی نشاندہی ہوئی ہے۔سی ٹی ڈی کی تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ گرے کیٹیگری میں موجود اسلحہ کو جعلی رسیدوں پر خریدنے کے ساتھ اسلحے کا نمبر ٹیمپر کیا جاتا ہے، اسلحے کی مقامی تھانے میں کوئی انٹری نہیں ہوتی۔ دوسرے صوبوں سے لیے گئے اسلحے کی جعلی رجسٹریشن کروائی جاتی ہے ،جعلی آل پاکستان انٹریز کے ساتھ جعلی اسلحہ لائسنس بھی بنائے جاتے ہیں۔سی ٹی ڈی کے مطابق گرے کیٹیگری میں موجود اسلحے کے باعث ایف ایس ایل ( فارنسک سائنس لیبارٹری ) میں ناکامی کے ساتھ اسلحہ کی مانیٹرنگ کرنے والے ڈیپارٹمنٹس کی بھی ناکام ہو رہے ہیں۔سسٹم کی خامیوں کے باعث کم عمر افراد کے ساتھ جرائم پیشہ افراد بھی اس کیٹیگری میں لائسنس حاصل کر رہے ہیں۔سی ٹی ڈی کے مطابق بلیک کیٹگری میں موجود اسلحہ مکمل طور پر غیر قانونی ہے جو کہ زیادہ تر جرائم پیشہ افراد مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں اور یہ اسلحہ ٹریس نہیں ہو سکتا۔سی ٹی ڈی کے مطابق شہر میں اسٹریٹ کرائم سمیت جرائم کے مختلف واقعات میں غیر قانونی اسلحے کا استعمال ہوتا ہے۔یہ اسلحہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے راستے سے شہر میں آتا ہے۔پولیس کے مطابق دیسی ساختہ اسلحہ درہ آدم خیل سے جبکہ باہر کا اسلحہ زیادہ تر بلوچستان کے راستے سے شہر میں آتا ہے۔سی ٹی ڈی کی تفتیش کے مطابق شہر میں منظم طور پر مختلف نیٹ ورکس کے کارندے آن لائن اسلحہ گھروں تک پہنچاتے ہیں۔درہ آدم خیل میں موجود مختلف آرمز کمپنیوں کی جانب سے اب آن لائن یہ اسلحہ کراچی بھیجا جا رہا ہے۔فیس بک پیجز کے ذریعے اسلحے کے بارے میں تشہیر کی جاتی ہے ۔پھر جو افراد اسلحہ خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں انھیں واٹس ایپ نمبر دیا جاتا ہے جس پر اسلحہ کی تصاویر اور ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں اور اسلحے کے حوالے سے تفصیلات پوچھی جاتی ہیں۔اسلحے کے ریٹ طے ہونے کے بعد کراچی میں پہنچانے کا وعدہ کیا جاتا ہے اور پھر مسافر بسوں،فروٹ کے اور دیگر ٹرکوں اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کے ذریعے یہ اسلحہ کراچی لایا جاتا ہے۔کراچی پہنچانے کے لیے 10 ہزار روپے فی پستول یا فی اسلحہ کمیشن لیا جاتا ہے۔پولیس نے بتایا کہ اسلحہ خریدنے والوں میں تمام افراد جرائم پیشہ نہیں ہوتے بلکہ اسلحے کا شوق رکھنے والے افراد بھی درہ آدم خیل سے اسلحہ منگواتے ہیں۔شہر میں اسٹریٹ کرائم سمیت دیگر جرائم میں ملوث افراد کو کرائے پر بھی اسلحہ مل جاتا ہے۔۔پولیس کے مطابق درہ آدم خیل سے جو اسلحہ آن لائن بک کروایا جاتا ہے اس میں پستول کا ریٹ 35 سے 55 ہزار روپے جبکہ کلاشنکوف کا ایک لاکھ 30 ہزار روپے کراچی پہنچانے کا لیا جا رہا ہے۔ مسافر بسوں اور ٹرالرز ،ٹرکوں اور کے ڈرائیورز کی تنخواہ چونکہ کم ہوتی ہے اسلیے وہ کراچی آتے وقت تین سے چار پستول خفیہ خانوں میں چھپا کر اپنے ساتھ لے آتے ہیں اور اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں۔پولیس نے بتایا کہ پہلے پشاور کے بس اڈوں سے آنے والی بسوں کے ذریعے یہ کام چل رہا تھا،وہاں سختی کے بعد اب مردان یا مانسہرہ کے بس اڈوں سے چلنے والی بسوں کے ذریعے یہ اسلحہ کراچی پہنچایا جا رہا ہے۔پولیس کے مطابق اس وقت نائن ایم ایم پستول کی زیادہ ڈیمانڈ ہے۔اس وقت نائن ایم ایم پستول کی پی او ایف کی بنی ہوئی گولی 120 روپے،چائنا کی گولی 180 روپے،سی زیڈ کی گولی 250 روپے جبکہ درے کی لوکل گولی 20 روپے سے 60 اور 70 روپے تک دستیاب ہے۔اس سے قبل آئی جی سندھ غلام نبی میمن اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات پر بتایا تھا کہ ہم نے شہر میں غیر قانونی اسلحے کی روک تھام اور اس میں ملوث گروپس کو پکڑنے کا ٹاسک سی ٹی ڈی کو دیا ہے۔انہوں نے بتایا تھا کہ یہ اسلحہ دہشت گردی اور ہائی پروفائل کرائم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ شہر کے تھانوں میں جو ملزمان گرفتار ہوتے ہیں ان سے برآمد اسلحے کی تفصیل بھی سی ٹی ڈی حاصل کر رہی ہے کہ یہ اسلحہ انکے پاس کہاں سے اور کیسے آیا ہے جبکہ آئی جی جیل سے بھی انہوں نے بات کی ہے کہ جو ملزمان اسلحے کے کیسز میں جیل چلے جاتے ہیں سی ٹی ڈی کی ٹیم کو ان سے معلومات لینے کے لیے جیل تک رسائی دی جا سکے۔پولیس کو اس حوالے سے جو لیڈ ملتی ہے اس پر کام کیا جاتا ہے ۔آئی جی سندھ کے مطابق اسلحہ کا کاروبار ایک منافع بخش کاروبار ہے۔زیادہ تر اسلحہ درہ آدم خیل سے مسافر بسوں میں آتا ہے۔وہاں سے آنے والے مسافر چار سے پانچ پستول ساتھ لے آتے ہیں جن سے ان کا کرایہ بھی نکل جاتا ہے اور منافع بھی ہو جاتا ہے۔آئی جی سندھ کے مختلف مختلف فورمز پر انہوں نے یہ بات کی ہے کہ درہ آدم خیل میں جو اسلحے کی انڈسٹری ہے اسے ریگولرائز کیا جانا چاہیے ۔وہاں اچھی کوالٹی کا اسلحہ بنے جسے ہم ایکسپورٹ بھی کر سکیں اور حکومت بھی وہ اسلحہ خریدے تاکہ جائز طریقے سے یہ انڈسٹری چل سکے۔غلام نبی میمن کے مطابق شہر میں 350کے قریب اسلحہ ڈیلرز ہیں جو اسلحہ فروخت کر رہے ہیں ان کے حوالے سے بھی انہوں نے محکمہ داخلہ کو تجویز دی ہے کہ انھیں ڈیجیٹلائز کیا جائے تاکہ وہاں پر آنے اور فروخت ہونے والے اسلحے کی مکمل معلومات ہمارے پاس بھی ہوں اور ہم اسے لائیو مانیٹر کر سکیں۔