عمران خان کو پاکستان کے اسٹار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی زندگی کے روشن پہلو خوب جگ مگ کرتے اور دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں۔ ان میں بے شمار خوبیاں ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان میں کچھ ایسی کمزوریاں بھی ہیں جن کا ان کو دیر بعد احساس ہوتا ہے۔ میں نے عمران خان کے کرکٹ کے زمانے میں ان کو قریب سے دیکھا ہے۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے کرکٹ کے دوروں میں، میں نے ریڈیو کی کمنٹری ٹیم کے انچارج پروڈیوسر کی حیثیت سے پاکستان کے میچ کور کئے۔ اس وقت عمران خان پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ میں نے عمران خان کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ نہ سگریٹ پیتے ہیں نہ شراب۔ عمران خان نے کبھی تاش کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ وہ کھانا بہت زیادہ کھاتے ہیں۔ وہ حد درجہ محنتی ہیں۔ ناکامی سے شروع ہونے والے سفر کو وہ کامیابی میں بدل دیتے ہیں۔ 1971ء میں جب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علم تھے، پاکستانی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوئے، پہلے میچ میں وہ مکمل ناکام ہوئے۔ دونوں اننگز میں 28؍اوورز بولنگ کرانے کے باوجود وہ کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔ اس سے پہلے میچ میں بیٹنگ میں انہوں نے صرف 5؍رنز اسکور کئے۔ اس کارکردگی کے بعد ان کو ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا پھر 1974ء میں وہ ٹیم میں واپس آئے۔ پہلے میچ میں دو وکٹیں لیں۔ ان کی محنت اور جذبے کا سفر جاری رہا اور بالآخر وہ 1982ء میں ٹیم کے کپتان بن گئے۔
کپتان بننے کے بعد عمران خان نے کامیابیوں کے کئی سنگ میل نصب کیے لیکن ہر سفر میں اجالوں کے ساتھ اندھیرے بھی ہوتے ہیں۔ 1987ء کے انگلینڈ کے دورے میں پاکستان کا پہلا ون ڈے میچ اوول کے گرائونڈ پر کھیلا گیا۔ میچ ختم ہوا تو میں نے کمنٹری کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی قیادت میں آج پاکستان کی ٹیم انگلینڈ کے خلاف مسلسل 8؍ویں میچ میں شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ اسٹیڈیم سے نکل کر ہم باہر ٹیکسی کے انتظار میں کھڑے تھے کہ پاکستان کے انگلش کمنٹیٹر میرے پاس آئے اور کہنے لگے، ایک بات کہوں اگر آپ برا نہ مانیں! آپ پچھلے ریکارڈ مت بتایا کریں۔ آج بھی آپ کو اس میچ تک محدود رہنا چاہئے تھا۔ پچھلے میچوں کا ذکر اضافی تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ کرکٹ ریکارڈز کا گیم ہے اور یہی اس کا حسن ہے۔
اس کے بعد سیریز جاری رہی۔ لارڈز ٹیسٹ مسلسل بارشوں کے باعث چوتھے دن ختم ہو گیا۔ میں نے عمران خان سے کہا کہ میں اس سیریز کے بارے میں آپ کا انٹرویو ریکارڈ کر کے پاکستان بھیجنا چاہتا ہوں کہ وہ صبح پاکستان میں نشر ہو۔ یہ بات لارڈز کے مین پویلین کے دروازے پر ہوئی۔ انہوں نے کہا میں اپنی کار لے آئوں پھر یہاں بیٹھ کر انٹرویو کر لیں گے۔
اس عرصے میں پھر بارش شروع ہو گئی۔ عمران خان کار لے کر آئے تو ساتھ والی اگلی نشست پر وہی کمنٹیٹر صاحب تشریف فرما تھے۔ عمران خان نے کار کا پچھلا دروازہ کھول دیا اور کہا بارش ہو رہی ہے کار میں بیٹھ کر ریکارڈنگ کر لیتے ہیں۔ ریکارڈنگ ختم ہو گئی۔ میں کار سے اتر گیا۔ عمران خان نے ہنستے ہوئے مجھے خداحافظ کہا۔
اسی سال کے کرکٹ سیزن میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آئی۔ پہلا میچ کراچی میں تھا۔ ٹیم مشق کر رہی تھی۔ میں نے عمران خان سے کہا! میں کل شروع ہونے والے ٹیسٹ کے بارے میں آپ سے انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ عمران نے بہت غصّے سے کہا! ’’آپ تو بڑے ریکارڈ بتاتے ہیں، میں آپ کو انٹرویو نہیں دوں گا‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ عمران خان کو لارڈز کے گرائونڈ میں میرے بارے میں کس نے بھرا ہے جو وہ اب تک غصّے میں ہیں۔ میرے اصرار پر عمران خان نے مختصر سا انٹرویو دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ اس کے چند ماہ بعد ہم آسٹریلیا کے دورے پر پھر ساتھ ساتھ ہوئے۔ مختلف گرائونڈز پر یا کسی ڈنر کے موقع پر ہمارا آمنا سامنا ہوا لیکن کوئی بات نہ ہوئی، نہ انہوں نے بات کی نہ میں نے۔
پھر پرتھ کے میچ کے بعد ٹیم برسبین جا رہی تھی۔ یہ چار گھنٹے طویل پرواز تھی۔ عمران خان کی نشست آئل نشست تھی اور اس کے پہلو کی کنارے والی نشست پر میں بیٹھا تھا۔ ہماری اگلی نشستوں پر 4؍پاکستانی اسٹار کرکٹر بیٹھے تاش اور آسٹریلوی ڈالروں سے فلاش کھیل رہے تھے۔ عمران خان ایک موٹی سی کتاب میں منہمک تھے۔ ایک مرحلے پر میں اٹھ کر واش روم گیا جو جہاز کے آخر میں تھا پھر وہیں کھڑا ہو کر آسٹریلیا کے بیابانوں کا نظارہ کرنے لگا۔ اتنے میں عمران خان ٹہلتے ہوئے وہاں آ گئے اور مجھ سے مخاطب ہوئے ’’آپ کچھ مجھ سے ناراض ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں…!‘‘ کہنے لگے ’’مجھے احساس تھا‘‘ پھر انہوں نے کچھ کھلاڑیوں کے بارے میں رائے دی۔ میرے دل کو عمران خان کی بڑائی نے متّاثر کیا۔ میں نے کہا ’’عمران صاحب! آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ بس آپ لوگوں کی باتوں پر غور کر لیا کریں‘‘۔
اس کے بعد سے جب بھی کسی اسٹیڈیم میں عمران خان سے آمنا سامنا ہوا انہوں نے بڑھ کر حال دریافت کیا۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔ مجھے معلوم ہے عمران دل میں بات نہیں رکھتے۔ شاید کچھ دن کیلئے رکھتے ہوں لیکن زیادہ دن تک اس بوجھ کو نہیں پالتے۔
اب خبریں آئیں کہ عمران خان صاحب نے جنگ اور جیو کے بارے میں کہا ہے کہ ان کو شکست دلوانے میں ان دو اداروں کا ہاتھ ہے اور انہوں نے ان دونوں اداروں کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی کیا۔ یہ خبریں پڑھ کر میرے دل میں ایک دم یہ خیال پیدا ہوا کہ جنگ اور جیو کے بارے میں کوئی کہانی ضرور ہے، کسی انگلش کمنٹیٹر کا کارنامہ ہو گی پھر یہ خیال بھی آیا کہ عمران خان جو ترقی کے سفر پر گامزن ہیں اب تک اپنی اس کمزوری پر قابو نہیں پا سکے کہ وہ لوگوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ عمران خان کو اپنی محنت اور کامیابی کی لگن پر توجّہ دینی چاہئے۔ یہی ان کے کیریئر کو کامیاب کر چکی ہے۔ ٹھنڈے دل سے جب وہ غور کریں گے تو ان کو معلوم ہو گا کہ میڈیا کامیابی اور ناکامی کی خبریں تو نشر کرتا ہے لیکن کسی کامیابی کو ناکامی یا ناکامی کو کامیابی میں نہیں بدل سکتا۔ جب کرکٹ میچ چل رہا ہو اور عمران خان، ووین رچرڈز کو بولڈ کر دے تو کیا کوئی کمنٹیٹر کہہ سکتا ہے کہ یہ بولڈ نہیں ہوا؟