• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم جیسے ہی اپنے آفس پہنچی چپراسی نے آ کر باس کا پیغام پہنچایا کہ ان کے پاس حاضری دی جائے، پہلے تو وہ کچھ گھبرائی لیکن پھر دل کڑا کر کے باس کے کمرے میں چلی گئی جہاں صبح صبح ایک بری خبر اس کی منتظر تھی کہ ملکی معیشت کی بگڑتی صورتحال اور بڑھتے ہوئے ٹیکسز کی وجہ سے کمپنی کا بجٹ خاصا آوٹ ہوگیا ہے، اس لیے کچھ ملازمین کو فارغ کیا جارہا تھا، جس میں آپ بھی شامل ہیں یہ سن کرمریم ساکت بیٹھی رہ گئی۔ یہ جاب اس کی مجبوری تھی، وہ ان لوگوں کی طرح شوقیہ نوکری نہیں کررہی تھی جو صرف وقت گزاری کے لیے کرتی ہیں۔ 

اسے اس کمپنی میں آئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ پانچ بہنوں میں وہ سب سے بڑی تھی۔ والد کا انتقال ہوچکا تھا اور بھائی سب سے چھوٹا تھا۔ گھر کرائے کا تھا اور مالک مکان جب چاہتا ذلیل کر دیتا تھا اب اس کی نوکری سے کم از کم گھر کی دال روٹی عزت سے چل رہی تھی۔ 

اس کے ساتھ کچھ اور بھی لڑکیاں تھیں جو اپنی تعلیم اور ٹیلنٹ کے باوجود کم تنخواہ اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر رکھی گئی تھیں، تاکہ ان کو مستقل ایمپلائز والی سہولتیں دیے بغیر کام لیا جاسکے۔ اس کے علاوہ ان کو اوور ٹائم وغیرہ بھی نہیں دیا جاتا تھا، جب کہ مرد حضرات اگر دیر تک کام کرتے تو انہیں اوور ٹائم دینا پڑتا تھا۔ 

ان سب چیزوں کے باوجود چھانٹی میں بھی سب سے پہلے اس بدنصیب کی ہی باری آ گئی تھی۔ مریم کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا، اس کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ روئے یا اللہ سے شکوہ کرے، کیوں کہ بہت جدوجہد کے بعد اس کو یہ نوکری مل تھی۔ دوسرے یہاں کا ماحول بھی ایسا تھا کہ وہ مطمئن ہوکر کام کر لیتی تھی ورنہ عموماً خواتین کو نوکریوں میں جس قسم کے حالات اور لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ ماحول یہاں نہیں تھا۔

یہ صرف ایک بیچاری مریم کی کہانی نہیں ہے بلکہ اکثر دفاتر، فیکٹریوں اور ہر اس جگہ کا مسئلہ ہے جہاں خواتین نوکری کرنے جاتی ہیں وہاں ان کے لیے مسائل کا انبار منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے، جس میں اوّلین مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ اگر کمپنی کی طرف سے یہ سہولت میسر نہ ہو تو خود سے آنا جانا ایک ایسا مرحلہ ہے، جس کی وجہ سے بہت سی خواتین ہمت ہار جاتی ہیں، کیوں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی ناگفتہ بہ حالت سب کو معلوم ہے۔

پرائیویٹ وین لگوائی جائے تو اس کے کرائے ہی مارے ڈالتے ہیں۔ اسی لیے اکثر والدین بھی لڑکیوں کے باہر نکلنے سے گھبراتے ہیں۔ جو ادارے پک اینڈ ڈراپ دیتے ہیں وہاں خواتین خوشی خوشی نوکری کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔دفاتر کی نوکری میں ایک اور بڑا مسئلہ ان کے اوقاتِ کار کا ہے۔ اکثر خواتین کو کام پہ سے گھر پہنچتے پہنچتے رات ہوجاتی ہے۔ 

یہ وہ اوقات ہیں جن پر آج بھی ہمارے معاشرے میں انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ٹریفک کی صورتحال، آفس کے اوقات اور راستے کی مسائل، سڑکوں کی دگرگوں حالت کی وجہ سے دیر سویر اب معمول کی بات ہے۔

یہ مسئلہ خواتین کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے، کیوں کہ اگر غیر شادی شدہ لڑکیاں ہوں تو زمانہ باتیں بنا تا ہے اور اگر کوئی خاتونِ خانہ کام سے دیر سے واپس آئے تو پہلے تو میاں جی کا موڈ آ ف ہوتا ہے ان کو منایا جائے اس کے بعد گھر، بچوں اور شوہر کے کاموں کا ایک انبار ہوتا ہے جنہیں نمٹانا بھی اس کا ہی فرض سمجھا جاتا ہے اور وہ بھی اس فرض کو نبھانے کے لیے تن، من، دھن سے جت جاتی ہے کہ کہیں لوگوں کے طعنے تشنے نہ سننے پڑ ئیں یہ بھی ایک ایسی وجہ ہے جو خواتین کو بہت جلد تھکا دیتی ہے۔ جب کہ مرد کام پر سے آکر صرف آرام کرنا پسند کرتے ہیں۔ عورت کی نوکری کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ 

اسے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے شوق سے کام پہ جاتی ہے جب کہ دوہری ذمہ داری اٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ایک اور اہم مسئلہ اداروں کا بھی ہے۔ زیادہ تر اداروں میں خواتین کو ان کی قابلیت اور صلاحیت کے لحاظ سے نہ سیٹ ملتی ہے اور نہ ہی تنخواہ۔ جب کہ اسی قابلیت اور صلاحیت کے حامل مردوں کو اعلیٰ پوسٹ بھی مل جاتی ہے اور ان کو مختلف مراعات بھی دے دی جاتی ہیں۔ 

اسی لیے اگر دیکھا جائے تو کلیدی عہدوں پر خواتین ایک یا دو فیصد نظر آتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انہیں ان کی صلاحیت اور قابلیت کے حساب سے عہدے اور مراعات نہیں دی جاتیں۔ شادی شدہ خواتین چاہے وہ کتنی ہی قابل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ گھر، بچوں، شوہر اور سسرال کے مسائل اتنے ہوتے ہیں کہ ان کا کام کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ بہت کم خواتین ایسی ہوتی ہیں جن کو ان کے گھر سے مکمل سپورٹ اور تعاون ملتا ہو۔ 

وہ خوش نصیب خواتین ہوتی ہیں جو شادی کے بعد بھی اپنی تعلیم اور قابلیت کو استعمال میں لا کر صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر پاتی ہیں، ورنہ زیادہ تر خواتین کو ٹیچنگ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، چاہے ان میں یہ صلاحیت ہو یا نہ ہو۔ اس صدی میں جب کہ دنیا میں عورتیں خلاء میں جارہی ہیں ،جہاز اڑا رہی ہیں۔

اس وقت جبکہ خواتین میں نوکری کا رجحان خاصا بڑھ گیا ہے، ہمارے یہاں اب بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر کوئی بیوی گھر سے کام کرنے نکلی ہے تو اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کی زمہ داریاں آ دھی بانٹ کر اس کا بوجھ بٹائے گی (جبکہ گھر کے کاموں میں اس کا بوجھ بٹانے والا کوئی نہیں ہوتا) یہی میاں صاحب جو اس کی کمائی پر اپنا پورا حق سمجھتے ہیں اس کے فرائض کی ادائیگی میں اس کا ساتھ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے۔ اور اگر کوئی بیٹی کام کرنے باہر جاتی ہے تو عموماً اس کا بھی یہ فرض سمجھ لیا جاتا ہے کہ تمام بہن بھائیوں کی زمہ داری اب اس کی ہے۔

معاشرے کا یہ ظالمانہ سلوک عورت کی کمر توڑ دیتا ہے۔اس کے علاوہ خواتین کی صحت کے مسائل بھی اکثر ان کے کام کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔علاوہ ازیں بچّوں کی دیکھ بھال کا مسئلہ بھی آتا ہے، اسی لیے اکثر خواتین ہمت ہارکر گھر بیٹھنا زیادہ بہتر سمجھتی ہیں۔ اور ایسے کتنے ہی مسائل اور دوسری مشکلات ہیں جن کا باہر نکلنے والی خواتین کو دن رات سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو خواتین بھی صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بہ خوبی نبھا سکیں گی۔ 

یہ مسائل اتنے بڑے ہرگز نہیں کہ انہیں حل نہ کیا جاسکتا ہو، اداروں کی سطح پر بھی اگر کوشش کی جائے تو بہتری آسکتی ہے لیکن شرط دیانت داری ہے، کہ اگر دیانت داری سے کوشش کی جائے اور خواتین کو تھوڑی سی سہولیات فراہم کردی جائیں اور اس کے ساتھ ان کے گھر والے تعاون کریں تو ہماری خواتین بھی کسی سے کم نہیں۔

وہ معاشرے اور گھر دونوں کو ساتھ لے کر بخوبی چل سکتی ہیں۔ موجودہ صدی میں ہم شاید یہ اُمید رکھ سکیں کہ ہمارے اذہان اور حالات بھی بدلیں گے اور ہم بھی ایک صحت مند معاشرے میں سانس لے سکیں گے۔