وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کی جانب سے کم آمدنی والے لاکھوں گھرانوں کیلئے 20 اور 30 ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان تاکہ وہ اس ماہ مبارک میں سحری و افطار اور دیگر اضافی اخراجات پورے کرسکیں، یقیناً مستحسن اقدام ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اس سلسلے میں منعقد کی گئی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی پیکیج کے تحت پورے ملک کے 40لاکھ گھرانوں کی مالی معاونت کی جائے گی۔ یہ امر خاص طور پر قابل تعریف ہے کہ اس رقم کی تقسیم میں مستفید ہونے والے گھرانوں کی عزت نفس کے تحفظ کا مکمل اہتمام کیا گیا ہے۔وزیراعظم نے گزشتہ سال کی نسبت اس رمضان میں مہنگائی کم ہوجانے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے بتایا کہ 40 لاکھ گھرانوںکو 5ہزار روپے فی خاندان کی رقم ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستحق گھرانوں کو رقم کے حصول کی خاطر قطاروں میں لگ کر دھکے نہیں کھانے پڑیں گے اور رقم دینے والے لینے والوں کی خودداری کو مجروح کرتے ہوئے میڈیا پر اشاعت کے لیے تصویریں نہیں بنوائیں گے بلکہ رقم خودکار طریقے سے مستحق خاندانوں تک پہنچ جائے گی۔ وفاق کا رمضان پیکیج ملک بھر میں بغیر کسی تفریق کے متعارف کروایا جا رہا ہے اور کراچی تا گلگت تمام شہروں کے مستحق خاندان یعنی تقریباً دو کروڑ افراد اس پیکیج سے مستفید ہو سکیں گے۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ سال بھی رمضان پیکیج کا اہتمام کیا تھا لیکن اس وقت اس کی مالیت صرف سات ارب روپے تھی جبکہ اس سال اسے 200 فی صد بڑھا کر20ارب روپے کردیا گیا ہے۔ رقم میں اضافے کا یہ فیصلہ یقینی طور پر بہتر حکومتی پالیسیوں کے باعث معاشی بحالی کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ چالیس لاکھ مستحق گھرانوں کا درست انتخاب بھی بلاشبہ ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ ماضی میں اس قسم کے اقدامات کا فائدہ بددیانت سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں غیر مستحق افراد اٹھاتے رہے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم وغیرہ کے حوالے سے ایسی اطلاعات بارہا سامنے آتی رہی ہیں۔تاہم حالیہ رمضان پیکیج میں اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے کہ مالی امداد کی تقسیم میں کوئی جعلسازی راہ نہ پاسکے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ اس معاملے میں مکمل شفافیت برقرار رکھنے میںاسٹیٹ بینک، ٹیک ادارے اور نادرا کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ وفاق کے رمضان پیکیج کے ساتھ ساتھ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کے مطابق پنجاب حکومت بھی تاریخ میں پہلی بار 30 ارب روپے کا رمضان پیکیج لائی ہے، جسکے تحت 30 لاکھ خاندانوں میں کیش کی صورت میں رقم ان کے گھروں کی دہلیز تک پہنچا رہی ہے۔ حکومت پنجاب کا یہ اقدام کم آمدنی والے مزید کئی کروڑ افراد کے لیے باعث راحت ہوگا۔ دوسرے صوبوں کو بھی اپنے مالی حالات کے مطابق اس سمت میں پیش رفت پر غور کرنا چاہیے۔ تاہم یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس قسم کی مالی معاونت کم آمدنی والے طبقات کے مسائل کا کوئی مستقل حل نہیں۔اصل ضرورت بہتر معاشی حکمت عملی کے ذریعے پائیدار ترقی اور ملک سے غربت اور بے روزگاری کے مکمل خاتمے کی ہے۔ اس مقصد کیلئے حکومت کے مالی وسائل میں اضافہ ضروری ہے جبکہ عدالتوں میں مقدمات کے سبب کھربوں کے واجب الادا ٹیکس وصول نہیں ہوپارہے ہیں۔ان مقدمات کے جلد فیصلوں کیلئے عدلیہ کو اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرنا ہوگا۔ ہموار معاشی ترقی اور مقامی و بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانے میں دہشت گردی ایک بنیادی رکاوٹ ہے۔ وزیر اعظم نے دہشت گردی کے خاتمے کا پرزور عزم بھی اپنے خطاب میں ظاہر کیا ہے لیکن بظاہر اس حوالے سے جاری اقدامات کچھ زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے وسیع تر مشاورت کے ذریعے زیادہ مؤثر حکمت عملی وضع کی جائے۔