• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزارت خارجہ کا کردار اور ذمہ داریاں کسی بھی ملک کیلئے نہایت اہم سمجھی جاتی ہیں اور یہ وزارت دنیا بھر میں اپنے ملک کی اہم وزارت ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ سفارت کاری سے لڑنے کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ ہماری وزارت امور خارجہ بعض معاملوں پر بر وقت ٹھوس موقف دینے سے قاصر رہتی ہے۔ اسرائیل و فلسطین کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ تاہم اچھی بات ہے کہ خارجہ امور میں کجی کو دور کرنے کی ایک سعی جہاں دیدہ سیاست دان جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نےکی اور اسرائیل، حماس جنگ بندی کے بعد حماس قیادت کے ساتھ سلسلہ جنبانی اختیار کیا اور حال ہی میں ان کی قطر میں حماس رہنماؤں سے اہم ملاقاتیں بھی جاری ہیں اور ان کے ترجمان کے بقول’’مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات سود مند رہی، جس میں انہوں نے خالد مشعل سے اہلِ پاکستان کی طرف سے اظہار یک جہتی و ہمدردی بھی کیاہے۔‘‘

مولانا فضل الرحمان نے حماس رہنماؤں کو پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہ کیا اور یقین دلایا کہ ’’پاکستانی عوام کے دل اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔‘‘

مولانا فضل الرحمان نے شہداء کی تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اسرائیل جنگی مجرم، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے‘‘ جب کہ اس موقع پر ڈاکٹر مشعل کا کہنا تھا کہ ’’فلسطینی مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے منتظر ہیں اگرچہ بعض تنظیمیں اپنے طور پر اہلِ ثروت لوگوں کے ذریعہ اشیائے ضروریہ کی صورت میں امدادی سامان مسلسل بھجوا رہی ہیں لیکن یہ کام بنیادی طور پر حکومت کا ہے کہ وہ مسلسل اس کارواں کو جاری رکھے اور وافر مقدار میں امدادی سامان بھجوائے کیونکہ تباہ حال اہلِ غزہ کی ضروریات بھیجی جانے والی امداد سے کہیں زیادہ ہیں، انہیں کفن بھجوانے کی بجائے وہ اشیاء بھجوائی جائیں جو انکے لئے انتہائی ناگزیر ہیں اور پاکستانی اشیاء کو ترجیح دی جائے تاکہ اہلِ پاکستان کی محبت کا عملی اظہار ہو سکے۔‘‘ اسی تناظر میں ڈاکٹر خالد مشعل کا کہنا تھا کہ ’’فلسطینی مسلمانوں کو دوائیوں، خیموں اور راشن کی بھی اشد ضرورت ہے۔‘‘

مولانا فضل الرحمان کی جانب سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی اور بتایا گیا کہ انکی جماعت جے یو آئی کے کارکن اور پاکستانی عوام مشکل وقت میں فلسطینی بھائیوں کے ساتھ تعاون کریں گے۔ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان کی حماس کی مرکزی مجلس شوری کے سربراہ ابو عمر سے بھی ملاقات ہوئی تھی اس ملاقات میں علامہ راشد محمود سومرو، مفتی ابرار احمد اور حماس رہنما ڈاکٹر ظہیر ناجی بھی موجود تھے۔ طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ چند روز قبل غزہ کے حوالے سے اسرائیل کے ایک نئے سخت گیر موقف میں اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر کا دھمکی آمیز موقف تھا کہ ’’غزہ کی پٹی میں پیش رفت کیلئے غزہ کو مکمل طور پر اسلحے سے پاک کرنا ضروری ہے اور اس کے ساتھ حماس اور اسلامی جہاد دونوں تنظیموں کو ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔‘‘

اسرائیلی وزیر خارجہ یورپی وزراء سے ملاقات کیلئے برسلز میں تھے جہاں صحافیوں کو دیے گئے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’’غزہ کی پٹی میں اگلے مرحلے میں منتقلی کیلئے یہ دونوں شرائط پوری کرنا ہوں گی۔‘‘ اسی ذیل میں جدعون ساعر نے باور کرایا کہ ’’تمام قیدیوں کی رہائی سے قبل غزہ میں جنگ ہرگز نہیں روکی جائے گی۔‘‘ دوسری طرف اسرائیلی وزیرِ اعظم نے ایک بار پھر اپنا جارحانہ موقف دہرایا ہے کہ ’’وہ غزہ میں حماس تنظیم کا اختیار ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘ متوقع جنگ میں جھونکے جانے سے پیشتر نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’’اسرائیل کسی بھی لمحے دوبارہ سے شدید لڑائی کی طرف لوٹنے کو تیار ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی روایتی شدت پسندی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھر کہا کہ ’’حماس غزہ پر حکومت ہرگز نہیں کرے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ فتح کو مذاکرات یا دیگر راستوں سے یقینی بنایا جا سکتا ہےکہ سات اکتوبر2023 کو غزہ کے علاقے میں اسرائیلی آباد کاروں کی غیر قانونی بستیوں اور اسرائیلی فوجی اڈوں پر حماس تنظیم کے غیر معمولی حملے کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں جنگ چھڑ گئی تھی، جس کے جواب میں کیے جانے والے اسرائیل کے شدید سفاکانہ فضائی حملوں اور بمباری کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں اڑتالیس ہزار تین سو سے زیادہ نہتے فلسطینی شہید ہوگئے تھے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ لازم ہے کہ دنیا اسرائیلی وزیرِ اعظم کے جارحانہ بیانات کا فوری نوٹس لے اور اس کی طرف سے مزید جنگ وجدل کی راہ روکنے کی بھرپور کوشش کرے۔ جب تک عرب ممالک کی تنظیمیں اسے اپنی بقا کا معاملہ نہیں سمجھتیں اور امتِ مسلمہ ’’ایک جسم، ایک جاں‘‘ نہیں ہو جاتی یہ معاملہ مزید گمبھیر ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ اسرائیل کو امریکہ نے جو تباہ کن میزائل فروخت کیے ہیں وہ فوجی عجائب گھر میں سجانے کیلئے تو ہرگز نہیں ہیں۔ انہیں جلد یا بدیر مظلوم فلسطینیوں پر ہی استعمال کیا جانا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس پسِ منظر میں مولانا فضل الرحمان کا حالیہ دورہ مظلوم فلسطینیوں کیلئے نہایت موثر اقدامات کی جہاں ضرورت کو اجاگر کرتا ہے وہاں اس امر کا عملی اظہار بھی ہے کہ مستقبل قریب میں وہ ایک اچھے وزیر خارجہ ثابت ہوسکتے ہیں اگر ان کی حکمت سازی کو سمجھا اور مانا جائے۔

تازہ ترین