کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک )ماہرین معیشت کا کہناہے کہ افراط زر میں کمی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہوئی ہے یا چیزوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں‘افراط زرکا 1.5فیصدپر آنا لوگوں کی قوت خریدمیں کمی کا نتیجہ ہے اوریہ معیشت کیلئے اچھا شگون نہیں ‘ اس صورتحال پر جشن نہیں منانا چاہیے بلکہ اس پر فکر مند ہونا چاہیے کیونکہ افراط زر میں کمی کی وجہ ڈیمانڈ میں کمی ہے کیونکہ لوگوں کی آمدن سکڑ گئی ہے جس کی وجہ بیروزگاری اور تنخواہوں میں ہونے والی کمی یا چیزوں کی قیمت میں ہونے والا لگاتار اضافہ ہے‘ افراط زرمیں کمی کامطلب ہے کہ معیشت بیمار ہے اور اس میں نہ تو گروتھ ہو رہی ہے اور نہ ہی لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہواہے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں مہنگائی میں کمی کے لگاتار دعوے کرتے ہوئے بتایا جا رہا ہے کہ ملک میں انفلیشن یعنی افراط زر کی شرح میں مسلسل کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فروری 2025 میں افراط زر کی شرح 1.5 فیصد رہی جو حکومت کے مطابق گذشتہ 113 ماہ کی کم ترین شرح ہے۔ افراط زر کی شرح میں کمی کو وزیر اعظم نے تسلی بخش قرار دیا جبکہ حکومتی وزرا اِن اعداد و شمار کی روشنی میں ملک میں مہنگائی میں کمی کے دعوے کر رہے ہیںتاہم پاکستانی شہریوں کو گلہ ہے کہ اگر حکومتی دعوؤں کے مطابق پاکستان میں افراط زر کی شرح لگاتار کم ہو رہی ہے تو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کیوں واقع نہیں ہو رہی یعنی مہنگائی کیوں کم نہیں ہو پا رہی؟ اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ افراط زر میں کمی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہوئی ہے یا چیزوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔